ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2008 |
اكستان |
|
پورے ملک میں کفر کے خلاف '' اِعلان جہاد '' کردیتے تو اُس کو بھی کسی درجہ کا ردّ عمل قرار دیا جا سکتا تھا مگر کیا عوام اور کیا اُن کے منتخب کردہ قائدین سب ہی کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ اَفسوس صد اَفسوس ! اپنی ناپاک مہم سر کرنے کا بھلا اِس سے بہتر موقع پہلے کبھی کفر کے ہاتھ لگا ہو گا؟ گزشتہ ماہ گلاسگو سے ایک مہربان دوست تشریف لا ئے تھے وہاں پر اپنے ساتھ پیش آنے ولا ایک واقعہ بیان کیا کہ عید کے موقع پر اپنے بچوں کے کپڑے خرید نے کے لیے ایک مسلمان کی دُکا ن پر گیا ، سوٹ خریدے اور دُکاندار کو بتا یا کہ بچوں کو پہنا کر دیکھوں گا اگر بڑا چھوٹا ہوا تو بدلوالُوں گا ،دُکاندار نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ میں گھر گیا کچھ کپڑوں کا ناپ دُرست نہیں تھا میں واپس کرنے نہیں بلکہ معاہدہ کے مطابق بدلوانے کے لیے اُس کی دُکا ن پر گیا اور جوڑے بدلنے کا کہا تو مسلمان دُکاندار نے صاف اِنکار کردیا کہ نہ بدلوں گا نہ واپس لُوں گا خیر جھک مار کر واپس ہوگیا پھر میں نے اُس دُکا ن پر جانا چھوڑدیااور ایک ہندو کی دُکان سے خریداری شروع کردی وہ معاملہ کا کھر اتھا کبھی کبھی ہنس کر پنجابی میں یوں کہا کرتا تھا کہ اپنے اِن ''مُسلوں'' کو سمجھاتے کیوں نہیں ہو اِنہیں کیا ہو گیا ہے کیا اِن کو اللہ کے سامنے پیشی سے ڈر نہیں لگتا۔ وہ مہمان کہہ رہے تھے کہ اُس کی یہ بات باتیں سن کر بڑی شرم آتی ہے۔ خواص کیا اور عوام کیا ہر سطح پر اور ہر میدان میں اِس دور کا مسلمان بدترین بدعملی میں مبتلاہے اور ہر مسلمان اپنے کو نظر اَنداز کر کے دُوسرے پرخوب خوب تنقیدی نظر رکھتا ہے۔ اِسی کو خود غرضی اور مطلب پرستی کہا جا تاہے۔ اپنے حق میں حساس ہونا اور دُوسروں کے لیے بے حس بن جانا باہمی نفرتوں کے ایسے دریا کو جنم دیتا ہے کہ جس میں قوموں کی قومیں اِس طرح ڈوب جاتی ہیں کہ پھر کبھی اُبھر نہیں سکتیں اور کوئی اُن کا نام لینے والا بھی باقی نہیں رہتا۔ اللہ تعالیٰ ہم مسلمانوں کو منافقت اور بدعملی سے سچی توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم باہم متحد ہوکر اپنے خلاف ہونے والی کفرکی سیاسی اور جنگی مہموں کو ناکام بناکر اپنی عزت ِرفتہ کو واپس لاسکیں۔ وما علینا الاالبلاغ المبین۔