ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2008 |
اكستان |
|
آئے) اللہ کو (بھی اُس پر) تمہارے غصّہ کی وجہ سے غصّہ آتا ہے اور (تم جس سے راضی ہو) اللہ تعالیٰ (اُس سے) تمہاری رضا کی وجہ سے راضی ہوتے ہیں۔ ( اُسد الغابہ) حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میں نے رسول اللہ ۖ سے سُنا کہ قیامت کے روز پردے کے پیچھے سے ایک مُنادی اعلان کرے گا کہ اے لوگو! اپنی آنکھوں کو بند کرلو، فاطمہ بنت ِ سیّدنا محمد ۖ گزر رہی ہیں۔ ( اُسد الغابہ)ایک مرتبہ سیّد ِ عالَم ۖ نے حضرت حسن، حسین اور اُن کے والدین (رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین) کے بارے میں فرمایا کہ جن سے اِن کی لڑائی ہے میری بھی لڑائی ہے اور جن سے اِن کی صلح ہے میری بھی صلح ہے۔ (مشکٰوة شریف) حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میں آنحضرت ۖ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ ۖ نے اُس وقت فرمایا کہ بیشک یہ فرشتہ ہے جو زمین پر آج کی اِس رات سے پہلے کبھی نہیں نازل ہوا۔ اپنے رب سے اجازت لے کر مجھے سلام کرنے اور یہ بشارت دینے کے لیے آیا ہے کہ یقینًا فاطمہ جنت کی عورتوں کی سردار ہے اور یقینًا حسن حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ (مشکٰوة شریف) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آنحضرت ۖ کی ہم سب بیویاں آپ ۖ کے پاس تھیں کہ اِس اثناء میں سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آگئیں۔ اُن کی رفتار بس ہوبہو آنحضرت ۖ کی رفتار تھی۔ جب اُن پر آنحضرت ۖ کی نظر پڑی تو آپ ۖ نے فرمایا۔ آؤ بیٹی مرحبا! پھر اُن کو آپ ۖ نے بٹھالیا۔ اِس کے بعد چپکے سے اُن کے کان میں کچھ فرمایا جس کی وجہ سے وہ بہت زیادہ روئیں۔ جب آپ ۖ نے اُن کو بہت رنجیدہ دیکھا تو دوبارہ آہستہ سے (اُن کے کان میں) کچھ فرمایا وہ اچانک ہنسنے لگیں۔ جب آنحضرت ۖ تشریف لے گئے تو میں نے دریافت کیا کہ بتاؤ آنحضرت ۖ نے تم سے آہستہ سے کیا فرمایا تھا؟ حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ رسول اللہ ۖ کے راز کو میں کیوں کھولوں؟ (سب سے فرمانے کی بات ہوتی تو آپ ۖ آہستہ سے کیوں فرماتے؟) جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی تو میں نے سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہاسے کہا کہ میرا جو تم پر حق ہے اُس کے زور میں پوچھتی ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے کیا فرمایا تھا؟ حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ ہاں اَب بتاسکتی ہوں۔ پہلی مرتبہ جو آپ نے آہستہ سے فرمایا تو خبردی تھی