ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2008 |
اكستان |
|
مولانا دَوتانی مفتی محمود کے ساتھ ساتھ ہوتے تھے۔ جب حضرت مدنی اور مولانا اشرف علی تھانوی کے مزارات پر حاضر ہوئے تو مولانا دَوتانی صاحب بے تحاشا رونے لگے جن کی وجہ سے حاضرین سب رونے لگے جب شیخ غلام اللہ خان اور مفتی محمود آپس میں بغلگیر ہوگئے تو مولانا دَوتانی کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے جس کا مجھ پر گہرا اَثر ہوا، بعد میں ملاقات ہوئی جوکہ یہ پہلی اور آخری ملاقات تھی اُن کے دیکھنے میں عجیب تاثیر تھی۔ ( مولانا عبد القادر آزاد، سابق خطیب بادشاہی مسجد لاہور ) ٭ آپ جیسے مخلص علماء کرام کو اِس وقت اُمت کی اَشد ضرورت ہے ۔اللہ کرے کہ تمام علماء کرام فرقہ واریت سے نکل کر کر اُمت کی صحیح رہنمائی کریں آپ کی ہر بات میں اِتنا وزن ہے کہ مخالف اُنگلی بدندان ہوجاتا ہے۔ ٭ جناب وزیر اعلیٰ صاحب آج اقتدار کی نشست پر بیٹھ ایک مولانا صاحب نے حق اور سچ کہا کہ اِقتدار اور حزب ِ اختلاف والوں کے حلقوں میں فرق نہ کیا جائے تمام فنڈز برابری کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے۔ میں (نواب صاحب) کہتا ہوں کہ آج کے بعد دَوتانی صاحب کو امین کے لقب سے پکارا جائے۔ (نواب اکبر خان صاحب بگٹی ) ٭ مولانا دَوتانی نے ذات پات قوم زبان نسل سے بالا تر ہوکر ایک پنجابی کو اپنے محکمے میں تعینات کیا، باقی وزراء کو اِن کی تقلید کرنی چاہیے اُنہوں نے بلوچستان کے ہر ضلع تحصیل کا مکمل دَورہ کیا ہے اور موقع پر ااحکامات جاری کیے ہیں جوکہ ایک روشن مثال ہیں۔(میر تاج محمد جمالی ،سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان) ٭ مولانا دَوتانی کی زندگی عجیب سی تھی۔ وزارت جیسے اہم عہدے سے اُن کی زندگی پر کوئی اثر نہیں ہوا وہ جیسے تھے ویسے ہی رہے۔ (نواب محمد اسلم خان رئیسانی، سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان)