ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2008 |
اكستان |
|
تھی وہ ہم میں بانٹ کر خود تناول فرمایا کرتے تھے کیونکہ جہاں دولت کدہ تھا اُس کا ایک دروازہ مسجد کی طرف تھا اَور مسجد ہی کے اَندر ایک حصّے میں یہ لوگ رہتے تھے جو اصحابِ صُفّہ تھے جو طالب ِ علم تھے رسول اللہ ۖ کے اور یہ حال جو ہے یہ ٧ ھ کے بعد کا ہے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ٧ ھ میں مسلمان ہوئے ہیں خیبر فتح ہوگیا ہے صلح حدیبیہ ہوچکی ہے وغیرہ وغیرہ پھر بھی یہ حال تھا صحابۂ کرام کا نہ تن ڈھکنے کو پورا سکون کے ساتھ کپڑا اور نہ کھانے کے لیے کوئی سامان و بندوبست،اُنہیں باوضو رہنا مشکل اِتنانہیں تھا ہمارے یہاںتین وقت کھاتے ہیں بلکہ چار وقت موقع مل جائے تو صبح کا ناشتہ اَلگ ہے دوپہر کا کھانا اَلگ ہے شام کو چائے کے ساتھ کچھ ہوگا پھر رات کو کچھ ہوگا چار وقت کھاتے ہیںتو پیٹ خراب رہتے ہیں بیماریاں پیدا ہوتی ہیں قسم قسم کی، اُن کے یہاں یہ تھا ہی نہیں۔ وہ کہتی ہیں حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہا کہ رسول اللہ ۖ کے زمانے میں ایسا کبھی بھی نہیں ہوا کہ روٹی ہو سالن ہو اور تین دن پیٹ بھر کر کھالیں کبھی ہوا ہی نہیں خُبْزِ مَادُوْن روٹی ہو سالن ہو اور تین دن پیٹ بھرنا میسر آجائے ایسا رسول اللہ ۖ کی حیات میں نہیں ہوا ہے اَزواجِ مطہرات یہ بیان فرماتی ہیں وہ کہتی تھیں کہ دو دو مہینے گزرجاتے تھے کہ ہمارے گھروں میں آگ نہیں جلتی تھی تین چاند دیکھ لیتے تھے ہم، تین چاند ہوجائیں گے ایک پہلی اور پھر چاند تیسویں کا اَور پھر تیسویں کے بعد دو مہینے، وہ پوچھتے پھر آپ کیسے گزارا کرتی تھیں کیا غذا ہوتی تھی اُنہوں نے کہا کہ اَسْوَدَانِ اَلتَّمْرُ وَالْمَآئُ یہ پانی اور کھجور اِسی پر گزارا کرلیتے تھے۔ حضرتِ بلال رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ مجھے جو عمل ایسا لگتا ہے کہ جس پر شایداللہ کویہ عمل باقی اعمال میں پسند ہو وہ یہ ہے کہ بغیر وضو نہیں رہتا اور جب وضو کی ضرورت ہوتی ہے میں وضو کرتا ہوں تو دو نفلیں پڑھ لیتا ہوں تحیة الوضو میں تو رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ یہی عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کو اِتنا پسند ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم اور فضل و کرم سے ہمیں آخرت میں اِن کا ساتھ نصیب فرمائے، آمین ۔ اختتامی دُعائ...............