ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2008 |
اكستان |
|
تحفۂ علم و حکمت ابوطاہر حضرت مولانا اسحاق خان صاحب مدظلہ' کی تحریر فرمودہ کتاب ''تحفۂ علم و حکمت'' پر حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمة اللہ علیہ سابق مہتمم دارُالعلوم دیوبند نے بطورِ تبصرہ اپنی قیمتی رائے کا اظہار فرمایا ہے جو حضرت مصنف کے لیے بجاطور پر باعث ِ مبارکبادی ہے اُن کی خواہش پر اِس کو بعینہ شائع کیا جارہا ہے اِس کی اشاعت جریدہ کے لیے بھی زینت اور باعث ِبرکت ہوگی۔ (اِدارہ) ''تحفۂ علم حکمت'' حقیقتًا تحفۂ علم وحکمت ہی ہے جس میں دلوں کی صلاح وفلاح کی ساری علمی اورعشقی تدبیریں کلامِ نبوت سے جمع کردی گئی ہیں جس میں علم کے ساتھ حکمت، حکمت کے ساتھ معرفت اورمعرفت کے ساتھ حقیقت کے خزانے اِسی طرح بھرے ہوئے ہیں جیسے اتہاہ سمندرکی گہرائیوں میں موتی اور جواہرات چھپے ہوئے رہتے ہیں اِس لیے اگریہ کہاجائے کہ ''تحفۂ علم وحکمت'' فقہ باطن کی ہدایہ اوّلین ہے توبے جانہیں ہوں گاکیونکہ ہدایہ اوّلین میں اعمالِ جوارح کے احکام ہیں اور تحفۂ علم وحکمت میں احوالِ قلوب کی ہدایات ہیںایک کاتعلق علم سے ہے اورایک کاعشق سے، وہ قوالب کے سدھارکاسرچشمہ ہے اور یہ قلوب کو بگاڑ سے بچانے کا ذخیرہ ہے۔ ظاہرہے کہ مقدم اندرونی اورقلبی بگاڑسے ہی بچناہے کہ اِس پرہیزکے بغیردوااورغذامؤثرنہیں