ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2008 |
اكستان |
|
معلوم ہو جاتی ہے۔ ہمیں ایسی باتیں کہنے کی اجازت نہیں ہے ۔ ''کشف'' ظنی گمانی چیز ہے : کیونکہ اگر کوئی ولی ہے اور اُسے کشف ہوتا ہے تو کشف بھی ظنی چیز ہے گمان کی چیز ہے ایک، وہ قطعی چیز نہیں ہے۔ خاتمہ کے وقت کی حالت کا اعتبار ہوتا ہے : دُوسرے یہ کہ رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم نے اِرشاد فرمایا ہے کہ ایک آدمی بُرے کام کرتا رہتا ہے اور جب خاتمہ کا وقت آتا ہے تو وہ نیک کاموں پہ لگ جاتا ہے توبہ کرلیتا ہے اچھا خاتمہ نصیب ہوجاتا ہے چاہے اُس کی وجہ یہی ہوتی ہو کہ اُس کے دل میں باطن میں کوئی خوبی ہوگی مخفی ایسی کہ جس پر نظر نہیں جاتی دیکھنے والے کی، وہ خدا اور وہ بندہ ہی جان سکتا ہے۔ تو ایسے بہت ہوتا ہے کہ گنہگار آدمی تنہائی میں روتے ہیں ملامت کرتے ہیں اپنے آپ کو، یہ جو تنہائی میں ملامت کرنا ہے پچھتانا ہے رونا ہے یہ تو خوبی ہے یہ دُوسروں کو تو نظر نہیں آرہی لیکن اللہ تعالیٰ تو جانتے ہیں وہ ہی کسی وقت تقویت پکڑجاتی ہے اور خاتمہ اچھا ہوجاتا ہے اور اِسی طرح اِس کا اُلٹ بھی ہوتا ہے کہ آدمی نیکیاں ہی کرتا ہوا نظر آتا ہے لوگ اچھا ہی سمجھتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ جان سکتے ہیں کہ نیکیاں کس نیت سے کررہا ہے اگر دِکھاوے کی نیت سے کررہا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اَنَا اَغْنَی الشُّرَکَآئِ عَنِ الشِّرْکِ میں تو بہت بے نیاز ہوں شرک سے، جو کوئی شریک کرتا ہے کسی اور کو دِکھاوے کی خاطر کرتا ہے کسی کے لیے کوئی عمل وہ اُس کا ہی ہے وہ میرے لیے نہیں ہے میں اُسے اپنے لیے نہیں قرار دُوں گا تو خدا کے یہاں وہ مقبول ہی نہیں۔ اَب ایک آدمی ہے جومریدوں میں جاتا ہے تو روزے ہی رکھتا ہے نفلیں ہی پڑھتا ہے کچھ اَور کرتا ہے اور حقیقتًا منشا اُس کا صرف یہ ہوتا ہے کہ لوگ مجھے دیکھ لیںلوگ میری بزرگی مان لیں یہ ذہن میں ہوتا ہے تو ایسی صورت میں حق تعالیٰ تو جانتے ہیں کہ اِس کے عمل کا کتنا وزن ہے اور یہ کس لیے کررہا ہے؟ وہ غیر مقبول ہوجاتا ہے عمل اور اُس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے معاذ اللہ کہ جیسے جیسے اُس کی موت کا وقت قریب آتا ہے موت کے سال نزدیک آتے ہیں بجائے اچھائی کے بُرائی میں وہ دلچسپی لینی شروع کردیتا ہے خاتمہ اچھا نہیں ہوتا معاذ اللہ، تو اپنے آپ کو جو آدمی اچھا سمجھ کر کوئی کام کرتا ہو وہ بس خطرے کی چیز ہے تو اِس کا پتہ ہمیں نہیں چل سکتا کہ کل یہ