ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2008 |
اكستان |
|
آدمی کیا کرے گا، اور اپنے بارے میں بھی کہ کل میرا کیا حال ہوگا؟ تو جب خود اپناپتہ نہیں ہے تو دُوسروں کے بارے میں اِس طرح کی بات کرنے کا حق کیسے کسی کو مل سکتا ہے؟ تو شریعت نے منع کردیا۔ اور اِس طرح کے واقعات جنابِ رسول اللہ ۖ نے بتلادیے سمجھادیے قاعدے بھی بتلادیے کہ اللہ کے یہاں عمل کا اور قبولیت کا قاعدہ یہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے یہاں غیر مقبول ہونے کا قاعدہ یہ ہے۔ برائی سے روکنا ضروری ہے : اور جسے اِس حال میں دیکھو اُس کو ٹوکو ضرور بُرائی سے منع کرنا فرض ہے مگر یہ نہیں سمجھ سکتے آپ کہ یہ آدمی جو آج بُرائی میں مبتلا ہے جسے میں ٹوک رہا ہوں یہ خدا کی نظر میں بھی ہمیشہ کے لیے ایسا ہی خراب ہوگیا اس فیصلے کا حق نہیں ہے ۔ بُرائی سے روکنا فرض ہے اور بُرائی ہی کو بُرائی سمجھے اُس آدمی کو بُرا نہ سمجھے وہ آدمی وہی ہو اور کل کو توبہ کرلے تو چاہیے یہ کہ وہ آپ کو اُتنا ہی محبوب ہوجائے جتنا توبہ کرنے سے پہلے وہ ناپسند تھا۔ ہاں رسول اللہ ۖ کی بات بالکل اَور ہے اور حرفِ آخر ہے وہ اللہ کی بتائی ہوئی ہے وہ وحی ہے وہ ایک قطعی چیز ہوتی ہے ۔تو آپ دریافت فرماتے رہے وہ نام لیتے رہے اور آپ یہ اِرشاد فرماتے رہے ۔حکمت اِس میں یہ بھی ہوگی کہ دُوسروں کو بتانا بھی تھا ١ یعنی خودرسول اللہ ۖ کو تو پتا تھا ہی اُن آدمیوں کو جانتے تھے اور اُن کو پہلے بھی دیکھا ہوا تھا۔وہ کہتے ہیں کہ اِتنے میں حضرت خالد ابن ِولید رضی اللہ عنہ گزرے ،یہ قصہ ہوگا ٧ ھ کے بعد کا کیونکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تو ٧ ھ میں آئے حاضر خدمت ہوئے تو خالد ابن الولید رضی اللہ عنہ جب گزرے تو پوچھا یہ کون گزرا ہے؟ تو میں نے بتایا کہ یہ خالد ابن الولید ہیں ۔ حضرت خالد بن ولید ''اللہ کی تلوار '' ہمیشہ غالب رہے : تو اِرشاد فرمایا نِعْمَ عَبْدُ اللّٰہِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیْدِ سَیْف مِّنْ سُیُوْفِ اللّٰہِ ٢ یہ بہت اچھے بندے ہیں اللہ کے خالدبن ولید اور یہ اللہ کی تلوار ہیں، اور بھی ہیں اللہ کی تلواریں اور اُن میں سے ایک تلوار یہ ہے تو ہے اِسی طرح کی بات۔ خالدبن ولید رضی اللہ عنہ جہاں بھی رہے ہیں غالب رہے ہیں جہاں بظاہر بچنے کا بھی امکان نہیں رہتا تھا اِتنے گھیرے میں آجاتے تھے وہاں بھی اِسی طرح،اور جہاد اِتنا پسند ،طبیعت سے ١ ایسے لوگوں کی برائی بیان کی جا سکتی ہے جن سے لوگوں کو نقصان پہنچ سکتا ہو،یہ غیبت نہیں ہے ۔(محمود میاں غفر لہ ) ٢ مشکوة شریف ص ٥٨١