ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2008 |
اكستان |
|
ڈائریکٹر ان کو بھی جو کہ خسارہ کے اصل ذمہ دار ہیں دیون اور قرضوں کی پوری ادائیگی کا ذمہ دار نہیں بنایا جاسکتا۔ اہم تنبیہ : مولانا تقی عثمانی صاحب نے اپنی کتاب اسلام اور جدید معیشت و تجارت میں شرکت اور کمپنی کے درمیان جو فرق بیان کیے ہیں وہ اُوپر گزر چکے ہیں۔ ان سے واضح ہے کہ کمپنی کا کاروبار شرکت سے مختلف ہے۔ ایک اور اختلاف کا ہم اضافہ کرتے ہیں جو یہ ہے کہ شرکت میں شریک حضرات میں صرف نفع تقسیم ہوتا ہے وہ تنخواہ نہیں لے سکتے جبکہ کمپنی کے ڈائریکٹران تنخواہ اور بھتے بھی وصول کرتے ہیں۔ لیکن اِس کے باوجود مولانا تقی عثمانی اور اُن کے صاحبزادے مولوی عمران اشرف عثمانی کمپنی کی حقیقت کے بارے میں عجیب تذبذب کا شکار ہیں۔ لیکن اِس کو جاننے سے پہلے مولانا تقی عثمانی مدظلہ کی کتاب اسلام اور جدید معیشت و تجارت کا اقتباس پڑھیے۔ ''…کمپنی کی جو خصوصیات سامنے آئی ہیں ان کے لحاظ سے کمپنی شرکت کی معروف اقسام میں سے کسی میں داخل نہیں۔ فقہاء نے شرکت کی چار قسمیں ذکر کی ہیں۔ اگر مضاربت کو بھی اس میں شامل کرلیا جائے تو پانچ قسمیں بن جاتی ہیں۔ کمپنی کا یہ نظام ان پانچوں میں سے کسی میں بھی بتمام و کمال داخل نہیں جیسا کہ پہلے شرکت اور کمپنی میں فرق بتائے جا چکے ہیں''۔ اب یہاں علمائے معاصرین کے تین نقطہ نظر ہیں : (1) ایک یہ کہ شرعًا شرکت اِن پانچ قسموں میں منحصر ہے اور کمپنی ان میں سے کسی میں بھی بتمام و کمال داخل نہیں۔ (2) دُوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ فقہاء کرام نے جو اقسام ذکر کی ہیں وہ منصوص نہیں، بلکہ فقہاء نے شرکت کی مروجہ صورتوں کا استقراء کر کے اس کی روشنی میں تقسیم فرمائی ہے… لہٰذا اگر شرکت کی کوئی صورت ان اقسام میں داخل نہ ہو اور شرکت کے اصول منصوصہ میں سے کسی کے خلاف بھی نہ ہو تو وہ جائز ہوگی۔ (3) تیسرا نقطہ نظر حضرت حکیم الامت تھانوی رحمة اللہ علیہ کا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ اپنی حقیقی