ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2008 |
اكستان |
|
اُنہوں نے اِسلام کی ترغیب دیتے ہوئے کہی تھیں۔ حضرت صدیق ِ اکبر رضی اللہ عنہ نے اِن کی باتوں کو سراہتے ہوئے خود بھی دعوت ِ اسلام پیش کی اور فرمایا : وَیْحَکَ یَا عُثْمَانُ اِنَّکَ لَرَجُل حَاذِم اَیَخْفٰی عَلَیْکَ الْحَقُّ مِنَ الْبَاطِلِ ھٰذِہِ الْاَوْثَانُ الَّتِیْ یَعْبُدُہَا قَوْمُکَ اَلَیْسَتْ حِجَارَةً صُمًّا لَا تَسْمَعُ وَلَا تُبْصِرُ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ ۔ افسوس !اے عثمان (اب تک دعوتِ حق تم نے قبول نہیں کی) تم تو ہوشیار اور سمجھ دار آدمی ہو، حق اور باطل کو پہچان سکتے ہو، یہ بُت جن کو تمہاری قوم پوجتی ہے کیا گونگے پتھر نہیں ہیں جو نہ سُنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں نہ نفع ضرر پہنچاسکتے ہیں۔ یہ سُن کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ بیشک آپ نے سچ کہا۔ یہ باتیں ہوہی رہی تھیں کہ سید عالم ۖ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ساتھ لیے تشریف لے آئے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے آپ ۖ کے سامنے اِسلام قبول کرلیا۔اِن ہی دِنوں میں ابولہب کے بیٹوں نے آنحضرت ۖ کی صاحبزادیوں کو طلاق دے دی تھی لہٰذا آنحضرت ۖ نے حضرت ِرُقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کردیا (الاصابہ)۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت رُقیہ رضی اللہ عنہا حضرت اُم کلثوم رضی اللہ عنہا سے بڑی تھیں۔ دونوں کو ایک ساتھ طلاق ہوئی تو بظاہر عقل کا مقتضٰی یہ ہے کہ پہلے بڑی دُختر کی شادی کی ہوگی (الاستیعاب) ۔(واللہ تعالیٰ اعلم) ہجرتِ حبشہ : جوں جوں مسلمان بڑھتے جارہے تھے اور اِسلام کے حلقہ بگوشوں کے جتھے میں اضافہ ہوتا جارہا تھا مشرکین ِ مکہ اِسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کی تدبیریں کرتے جارہے تھے۔ اِن ظالموں نے خدائے وحدہ' لاشریک کے پرستاروں کو اِس قدر ستایا کہ اپنے دین کی سلامتی اور جان کی حفاظت کے لیے اِن حضرات کو اپنے مالوف وطن چھوڑنے پڑے۔ مسلمانوں کی ایک جماعت ترک ِ وطن کرکے حبشہ کو چلی گئی۔ ان میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی اہلیہ بنت سید البشر حضرت رُقیہ رضی اللہ عنہا کو ساتھ لے کر حبشہ کو