ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2008 |
اكستان |
|
اَولاد : حضرت رُقیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے صرف ایک صاحبزادہ تولد ہوا جس کا نام عبد اللہ رکھا گیا۔ اس صاحبزادہ کی ولادت حبشہ میں ہوئی تھی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ایک صاحبزادہ کا نام اِسلام سے پہلے عبد اللہ تھا، اِس کی وجہ سے ابوعبد اللہ کنیت تھی۔ پھر جب حضرت رُقیہ رضی اللہ عنہا سے صاحبزادہ تولد ہوا تو اُس کا نام بھی عبد اللہ تجویز کیا اور اپنی کنیت ابوعبد اللہ باقی رکھی۔ (الاستیعاب) اِس صاحبزادہ نے چھ برس کی عمر پائی اور جمادی الاولیٰ ٤ ھ میں وفات پائی۔ حضرت سید عالم ۖ نے اِن کے جنازہ کی نماز پڑھائی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قبر میں اُتارا۔ وفات کا سبب یہ ہوا کہ ایک مرغ نے اِن کی آنکھ میں ٹھونگ ماردی جس کی وجہ سے چہرہ پر ورم آگیا۔ مرض نے ترقی کی حتّٰی کہ راہی ملک ِ بقا ہوگئے رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اُسد الغابہ)۔ حضرت عبد اللہ کے بعد حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے کوئی اَولاد نہیں ہوئی۔ (الاصابہ) وفات : حضرت رُقیہ رضی اللہ عنہا نے ٢ ھ میں وفات پائی۔ یہ غزوۂ بدر کا زمانہ تھا۔ حضورِ اقدس ۖ جب غزوۂ بدر کے لیے روانہ ہوئے تو حضرت رُقیہ رضی اللہ عنہا بیمار تھیں۔ اُن کی تیمارداری کے لیے آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو چھوڑکر روانہ ہوئے اور چونکہ آپ ۖ کے اِرشاد سے اُنہوں نے غزوۂ بدر کی شرکت سے محرومی منظور کی تھی اِس لیے آنحضرت ۖ نے اُن کو اِس مبارک غزوہ میں شریک ہی مانا اور مالِ غنیمت میں اُن کا حصہ بھی لگایا۔ جس روز حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ فتح کی خوش خبری لے کر مدینہ منورہ پہنچے اُسی روز حضرت رُقیہ رضی اللہ عنہا نے وفات پائی۔ ابھی اِن کو دفن کرہی رہے تھے کہ اللہ اکبر کی آواز آئی۔ حضرت عثمان نے حاضرین سے پوچھا کہ یہ تکبیر کیسی ہے؟ لوگوں نے توجہ سے دیکھا تو نظر آیا کہ حضرت زید بن حارثہ سید عالم ۖ کی اُونٹنی پر سوار ہیں اور معرکہ بدر سے مشرکین کی شکست اور مسلمانوں کی فتح کی خوش خبری لے کر آئے ہیں۔ حضرت رقیہ کے جسم مبارکہ پر سوزش والے آبلے اور زخم پڑگئے تھے۔ اِسی مرض میں وفات پائی۔ سید کونین ۖ غزوۂ بدر کی شرکت اور مشغولیت کی وجہ سے اِن کے دفن میں شریک نہ ہوسکے تھے۔ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہ وَعِتْرَتِہ وَصَحْبِہ وَبَارَکَ وَسَلَّمَ ۔7n8