ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2008 |
اكستان |
|
دینی مسائل ( طلاق کابیان ) طَلَاق یا طَلَاقُنَّ یا مُطَلَّقَة وغیرہ الفاظ کے ساتھ نکاح کے بندھن کے فی الحال توڑنے یاانجام کار توڑنے کو''طلاق دینا'' کہتے ہیں۔ طلاق کاحکم : 1۔ مباح ہے جبکہ کوئی ضرورت ہو۔ 2۔مستحب ہے جب عورت دین کے فرائض مثلاًنمازروزہ ترک کرتی ہویااپنے قول وفعل سے ایذاء دیتی ہو مسئلہ : فرائض کی تارک کوطلاق دیناواجب نہیں ہے۔ 3۔ واجب ہے جب شوہرکابیوی کے ساتھ بھلے طریقے سے رہنا ممکن نہ ہومثلاًجب شوہر نامرد ہو وغیرہ تنبیہ : والدکہے کہ طلاق دے دوتواگروالدکاایساحکم دینے میں کوئی دینی یادُنیوی مصلحت ہو تو طلاق دینابہترہے اوراگروالدنے ایسا محض خاندانوں کی باہمی رنجش کی بناپرکہاہے کسی مصلحت کوپیش نظرنہیں رکھا یااَندیشہ ہے کہ طلاق دینے کی صورت میں زوجین میں سے کوئی یادونوں صبرنہ کرسکیں گے توطلاق نہ دے۔ طلا ق دینے کااہل : وہ شوہرجوصاحب ِعقل ہوبالغ ہواوردیندارہوطلاق دینے کااہل ہے۔ مسئلہ : شوہرکے سوا کسی اورکوطلاق دینے کااختیارنہیں ہے البتہ اگرشوہرنے کہہ یاہوکہ تواُس کو طلاق دے دے تووہ بھی دے سکتاہے۔ مسئلہ : جوشوہرجوان ہوچکاہواوردیوانہ پاگل نہ ہواُس کے طلاق دینے سے طلاق پڑجائے گی اور جو لڑکاابھی جوان نہیں ہوااوردیوانہ پاگل جس کی عقل ٹھیک نہیں اِن دونوں کے طلاق دینے سے طلاق نہیں پڑتی مسئلہ : جب سوتے ہوے آدمی کے منہ سے نکلاکہ تجھ کوطلاق ہے یایوں کہہ دیاکہ میری بیوی کوطلاق تو اِس بڑبڑانے سے طلاق نہ پڑے گی۔ (جاری ہے)