ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2008 |
اكستان |
|
ہوگا؟ ستر سال کا معانقہ ہوگا، سبحان اللہ وَحُوْر عِیْنo کَاَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَکْنُوْنِo بے شمار لوگ اِس بات کو سمجھتے ہی نہیں کہ جنت شہوات کی جگہ ہے وہ سمجھتے ہیں کہ جنت بس ایک رُوحانی جہان ہے جہاں کوئی شہوت نہیں ہوگی بس ایک رُوحانی زندگی ہوگی۔ یہ سب سے پہلے جنت کو اللہ تعالیٰ نے فضل کیا میرے ذریعے سے جنت کا بیان ہونا شروع ہوا جنت کا تو کوئی بیان ہی نہیں کرتا تھا، اللہ جنت دے گا بس اِتنا ہی ہوتا تھا کیونکہ فضائل ہمارے ہاں پہلے پڑھائے ہی نہیں جاتے اور تبلیغ کا موضوع ہی فضائل کا علم ہے تو اُن فضائل کے ڈھونڈتے ڈھونڈتے ڈھونڈتے میں جنت کی کتاب تک پہنچ گیا ھَادِی الْاَرْوَاحِ اِلٰی بِلَادِ الْاَفْرَاحِ جب میں نے پڑھی تو میں خود پاگل ہوگیا کہ یااللہ یہ باتیں تو آج تک نہ پڑھیں نہ سُنیں نہ کسی نے بتائیں پھر میں نے اُن کو بیان کرنا شروع کیا، ایک ہزار آیات ہیں جنت اور جہنم کی یعنی قرآن کا 6/1حصہ، یہ فضائل آدمی کے اندر رُوح بھردیتے ہیں۔ تو میرے عزیزو آپ حق کے داعی ہو حق کو پہچانو اُس کے اندر صاحب ِ بصیرت بنو آج میں آپ کو صرف ''علم'' کے فضائل سُنانے کے لیے آیا ہوں چھٹیاں قریب آئیں گی تو پھر تبلیغ کے فضائل بتاؤں گا اَبھی تو آپ کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ بتارہا ہوں کہ ہمارا جو علمی زوال ہے یہ بہت ہی دُکھ دینے والی بات ہے اور بہت زیادہ پریشان کُن بات ہے۔ ایک تاجر کی تجارت کو زوال آجائے تو کیا ہے؟ چلو پورے پاکستان کی تجارت بیٹھ جائے تو اُس سے کیا ہوگا؟ رازق تو اللہ ہے کہیں اَور سے روٹی دے دے گا ،اگر علم بیٹھ گیا تو پھر کیا بنے گا؟ ساری دُنیا اَندھیروں میں ڈوب جائے گی۔ تو میں آپ کو آج یہ کہنے آیا ہوں اور سر میں بہت شدید دَرد ہے میرا خیال تھا کہ میں آدھا پونا گھنٹہ اپنا وعدہ نبھاکر چلا جاؤں گا لیکن آپ کی محبت میں میں ایسے آہستہ آہستہ آپ سے باتیں کرتا رہا اور بولتا رہا، میری یہ تمنا ہے کہ یہاں سے ہر نکلنے والا ایسے نکلے کہ علم کا نور اُس کی رگوں و پے میں سرایت کرچکا ہووہ جدھر جائے روشنی پھیلاتا چلا جائے۔ ابھی مولانا حامد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کی بات سُنی آپ کے مہتمم صاحب کی زبان سے کہ اُن کی تمنا تھی کہ ایسا مدرسہ ہو جس میں پانچ چھ ہزار طلباء ہوں تو ہر سال ایک بڑی تعداد علماء کی نکلے اور وہ آہستہ آہستہ آہستہ ماحول میں جگہ بناتے بناتے بناتے ایک خاموش مثبت انقلاب آئے اِس سوچ پر یہ جگہ خریدی گئی اور اِتنا لمبا چوڑا نظام بنایا گیا اللہ نے اہل اللہ کی اور مخلصین کی چاہے زندگی میں چیز وجود نہ بھی پائے تو اُن کی نیت کی وجہ سے اللہ بعد میں اُن کی شکلیں بنادیتا ہے تو اُن کی زندگی میں شکل کو وجود نہ ملا لیکن اُن کے بعد یہ سارا وجود جو