ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2008 |
اكستان |
|
کہ ہم سیبویہ بن سکتے ہیں نہیں بن سکتے لیکن کچھ تو مناسبت پیدا ہونی چاہیے۔ ایک پٹھان گیا دِلّی (پٹھان بھائی ناراض نہ ہوں ایسے ہی مذاقًا کہہ رہا ہوں سارے بھائی ایسے نہیں ہوتے لیکن یہ قصہ پٹھان کا ہی ہے) وہ مرید ہوگیا مرزا مظہر جانِ جاناں رحمة اللہ علیہ کا، وہ بڑے نفیس تھے طبعاً انتہائی نفاست تھی طبعیت میں ،تو تھوڑی بہت اُردو وہ سیکھ گیا تھا تو اُنہوں نے کہا خان صاحب وہ صُراحی اُٹھاکر لاؤ پانی پینا ہوگا تو دِلّی کی زبان میں صراحی کا جو نیچے کا حصہ ہوتا تھا جس کو پیندا کہتے ہیں اُس زمانے میں اُس کو ''پیٹ ''کہتے تھے تو وہ خان صاحب اُٹھے تیزی کے ساتھ تو حضرت کو خیال آیا کہ کہیں یہ صُراحی توڑ نہ دے تو اُنہوں نے پیچھے سے کہا خان صاحب !پیٹ پکڑکر اُٹھانا ۔تو اُس پٹھان نے ایک ہاتھ سے صُراحی کو پکڑا اور دُوسرے ہاتھ سے اپناپیٹ کو پکڑلیا ،اُن کی مراد تو یہ تھی کہ نیچے سے اُٹھانا اُوپر سے نہ اُٹھانا کہ کہیں ٹوٹ نہ جائے تو اُس نے ایک ہاتھ سے اپنا پیٹ پکڑلیا اور ایک ہاتھ سے صراحی پکڑلی، تو یہی حال ہماری عربی کا ہے۔ تمہیں مجھے اور ہم سب کو اَشد ضرورت ہے اللہ کی پاک زبان سے مناسبت پیدا کرنے کی، پاؤں میں زنجیر باندھنی پڑے گی اِس کے لیے، گھر سے بھی چھٹی رشتہ داروں سے بھی چھٹی چاردیواری کا پابند بننا پڑے گا سارا سال ،تب جاکر آپ کو مناسبت پیدا ہوگی کیونکہ یہ پرائی زبان ہے۔ تو ولید بن مغیرہ کا میں آپ کو سُنا رہا ہوں وہ آیا جس پر اُس نے یہ ساری بات کی تو آپ نے اُس کے سامنے جب اُس نے بات کی تو آپ نے کہا میری بات تو سن میں کیا کہتا ہوں، تو آپ نے سورہ مزمل کی یہ آیتیں پڑھیں یَوْمَ تَرْجُفُ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ وَکَانَتِ الْجِبَالُ کَثِیْبًا مَّھِیْلًا o اِنَّآ اَرْسَلْنَآ اِلَیْکُمْ رَسُوْلًا شَاھِدًا عَلَیْکُمْ کَمَآ اَرْسَلْنَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلًاo فَعَصٰی فِرْعَوْنُ الرَّسُوْلَ فَاَخَذْنَاہُ اَخْذًا وَّبِیْلًا o فَکَیْفَ تَتَّقُوْنَ اِنْ کَفَرْتُمْ یَوْمًا یَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْبَاoنِ اَلسَّمَآئُ مُنْفَطِر بِہ کَانَ وَعْدُہ مَفْعُوْلًاo اِنَّ ھٰذِہ تَذْکِرَة فَمَنْ شَآئَ اتَّخَذَ اِلٰی رَبِّہ سَبِیْلًاo تمہارے میرے لیے اِس میں کوئی ایسا نغمہ نہیں ہے جو دل کی تاروں کو چھیڑے جو حیرت پیدا کرے بس اُوپر سے گزرگئیں تو ولید تو عربی دان تھا تو اُس نے جب سُنا تو اُس کے منہ سے خوف کی وجہ سے آواز نکلی آنکھیں پھٹ گئیں منہ کُھل گیا خَرَجَ قَہْقَرَةً ایسے اُلٹے پاؤں واپس لوٹا پشت نہیں پھیرسکا اور پھر اُس نے وہ مشہور جملہ کہا اِنَّ فِیْہِ لَحَلٰی وَاِنَّ عَلَیْہِ لَقَلٰی وَاِنَّ اَسْفَلَہ مُغْلَق وَاَعْلَاہُ مَسْنَد وَاِنَّہ لَیَعْلُوْا وَلَایُعْلَقُ وَاِنَّہ لَیَحْکُمُ مَا تَحْتَہ یہ کلمات اِتنے عالی شان تھے کہ اُصولِ تفسیر