ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2008 |
اكستان |
|
بھول جاتا ہوں کوئی دَسویں دفعہ اُس بے چارے نے کہا کہ بھائی میرے لیے اَوجز لیتے آنا اور ہر دفعہ میں اُن کے آگے شرمندہ ہوتا ہوں شیخ معاف کردو یاد ہی نہیں رہتا ،میں ایسا بھاگم بھاگ سفر میں ہوتا ہوں کہ بالکل بھول جاتا ہوں۔ تو تمہارے کندھوں پر بہت بڑا بوجھ ہے تم اِس کو محسوس کرو جس چیز کے لیے تم نکلے ہو اگر تم اُس میں ہی متقِن اور راسخ نہیں ہوگے تو تم ہر چیز جو بھی کروگے اَدھوری کروگے اِس کمی کو تم محسوس کرو۔اگرمیں کسی بچے سے کہوں کہ بیٹا اُٹھو اور اپنا مافی الضمیردس منٹ عربی میں بیان کرو تو وہ ھٰذَا ھٰذِہ سے آگے نہیں چل پائے گا۔ تو یہ سبق کا جہان ہے یہ معجزات کا جہان نہیں ہے اَسباب کا جہان ہے تو ہم عجم ہیں ہمیں محتاجگی ہے کہ ہم اللہ کے کلام کو سیکھیں اُس کی لغت کو سیکھیں ۔قرآن کا سب سے خوبصورت تعارف قرآن کی زبان میں ہے سورۂ شعراء میں وَاِنَّہ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ، پہلا سوال آتا ہے کس نے بھیجا ہے؟ کہا تَنْزِیْل ، کس کی؟ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ، کون لایا ہے؟ نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ،کس کے پاس آیا ہے؟ عَلٰی قَلْبِکَ، کیوں آیا ہے؟ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذَرِیْنَ ، کس لُغت میں ہے؟ بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ اِس سے خوبصورت تعارف قرآن میں قرآن کا شاید ہی کہیںاَورآپ کو ملے تو بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ یہ اِس کے اِضافے کی کیا ضرورت ہے؟ ہے ہی عربی میں اور مخاطب بھی عرب ہیں تو پھر اِس کا اضافہ کس لیے ہے؟ اس لیے کہ یہ سارے عالم کے لیے کلام اُترا ہے تو سارا عالم عربی نہیں ہے عجم بھی ہے تو اُن کے ذمّہ ہے کہ اِس لُغت کا اِتنا اِدراک حاصل کریں کہ اِس کی زبان کو اِس کے اشارات کو اِس کے اِستعارات کواِس کی تشبیہات کو اوراِس کے خوبصورت معانی کو سمجھ سکیں ۔اگر اللہ چاہتا تو ضَرَبَ زَیْد عَمْرًا والی ...... اُتاردیتا لیکن اللہ نے ایسا خوبصورت اُتارا ایسا خوبصورت اُتارا کہ کمال کردیا اور عرب کو پاگل کردیا ہے۔ قرآن میں ہے اِنَّہ فَکَّرَ وَقَدَّرَo فَقُتِلَ کَیْفَ قَدَّرَo ثُمَّ قُتِلَ کَیْفَ قَدَّرَ o ثُمَّ نَظَرَo ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ o ثُمَّ اَدْبَرَ وَاسْتَکْبَرَo یہ اتنی خوبصورت تعبیر ہے اللہ کی قسم تھوڑی سی تمہیں عربی زبان سے مناسبت ہو تو تمہیں ایسا نظر آئے گا جیسے ولید تمہارے عاجز اور بے بس ہوکر تڑپ رہا ہے اور جُھن جُھلا رہا ہے کبھی اُٹھتا ہے کبھی بیٹھتا ہے کبھی چلتا ہے کبھی مُڑتا ہے۔جس چیز کو بھی قرآن پیش کرتا ہے یوں پیش کرتا ہے کہ جیسے وہ چیز سامنے آگئی ہو اور یہ اُس وقت ہوسکتا ہے جب تمہیں تھوڑی سی مناسبت ہوجائے ،میں کب کہتا ہوں