ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2008 |
اكستان |
|
دماغ کی سوچ کی اورفکرکی ساکھ کیاہے توایک دفعہ زاویہ متعین ہو پھر آدمی جوہے وہ غلط پروپیگنڈے پر نہیں جاسکتا۔ بس اُس کوپتہ ہوتاہے کہ ہماری یہ رائے ہے ہم اِس رُخ پر ہیں، کم ازکم اعتماد ہوناچاہیے کہ ہمارے ساتھی جوہیں نہ وہ بے دینی کا ساتھ دے سکتے ہیںاور نہ وہ لادینی کا ساتھ دے سکتے ہیں۔اَب میں پہلے دن بیان دے رہاہوں جب مجھ سے لوگ پوچھتے ہیں کہ آپ نے کیاکرناہے؟ تومیں نے کہامیرے پاس تو مینڈیٹ ہی اِتنا ہے کہ میری سیٹیں تو متعین ہیں یا اپوزیشن کی اِتنی سیٹیں میری ہیں تو جس آدمی کو اپنی پارلیمانی قوت کاپتہ ہو اور اُس کویہ معلوم ہوکہ یہ سیٹ میری ہے وہ یہ کیسے کہے گاکہ وزیراعظم میں بنوں؟ یعنی میں حکومتی بینچوں پربیٹھنے کا حقدار اپنے آپ کونہیں سمجھتا چہ جائیکہ میں وزیراعظم کی کرسی کی بات کروں تویہ آپ خودبھی سوچ سکتے ہیں اِس بارے میں کہ ایسی بات کوئی کہہ سکتاہے؟ ہمیں خود بھی سوچناچاہیے؟یہ خبرجب چلی وہ بیچارا خود اِتنا خفا ہوا کہ وہ میرے گھر آکربیٹھ گیااورکہاکہ میں معافی مانگنے کے لیے آیاہوں اور آپ کے گھر میں بیٹھا ہوں اور زمین پربیٹھاہوں کیونکہ یہ خبر واقعتًا ایسے جیسے مذاق کیاہواور آپ کویہ اِحساس ہواہوگاکہ شایداِن لوگوں نے میرامذاق اُڑایاہے۔ تو میں آپ کومطمئن کرنے کے لیے آیاہوں آپ سے معافی مانگنے کے لیے آیاہوں کہ ایسی بات نہیں ہونی چاہیے۔ دُوسری بات یہ ہے کہ اُس وقت ابتدائی بات توہوئی تھی مو لا نا عبد ا لعز یز صا حب سے۔ ایک بات میں آپ کوبتادوں خبریہ آئی ہے کہ میں نے ملاقات کی ہے اوریہاں سے کہانیاں شروع کردیتے ہیں کہ فضل الرحمن گیا ہے ملاقات کی ہے............. اورہم بہت سی چیزیں شائع نہیں کیاکرتے۔ ہم نے کیاکچھ نہیں کیا، کیاکچھ کیاہے ،بہت سی چیزیں ہیں جو ہم نے مصلحتًا شائع نہیں کیں۔ اَب چونکہ یہ قوتیں جانتی ہیں کہ یہ ساراکام کرتے رہے ہیں لیکن شائع نہیں کیں تواِس کے خلاف کوئی اورچیزشائع کردو تاکہ اِن کونقصان ہوجائے ایسی چیزیں بھی چلتی ہیں درمیان میں۔ تویہ باتیں جوہمیں کہی گئیں کہ صاحب جمہوریت کا کیا فائدہ؟ تومیں نے کہاکہ کوئی اَور راستہ بتاؤ، یہی راستہ ہے ابھی کامیابی نہیں ملی توکیا کامیابی کے ہم مکلف ہیں؟ یایہ کہ ہماری جدوجہدکاراستہ متعین ہے اور جب تک ہمیں اِس کامتبادل نہیں ملتا تو ہم جس راستے پر جارہے ہیں چلنے دو ہمیں، اور میں یہ کہوں کہ مدرسے جوہیں یہ دین کے علم کے لیے بنے ہیں توکیااِس دین کے علم کے تقاضے پوری سوسائٹی میں نظرآرہے ہیں؟ اور