ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2008 |
اكستان |
|
ہوا کہ ''وہ گویا کہ شرکت کا معاملہ کر رہا ہے''۔ مولانا کو تو یوں کہنا چاہیے تھا کہ ''وہ درحقیقت شرکت کا معاملہ کر رہا ہے۔'' ہم کہتے ہیں کہ اگر مولانا تقی عثمانی صاحب ہماری تجویز سے اتفاق کریں تو وہ اپنے تذبذب سے نکل سکتے ہیں۔ ہماری تجویز یہ ہے کہ یہ اولا شرکت املاک ہے اور پھر عقد اجارہ ہے۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ حصص کے خریدار اور ابتدائی سرمایہ کار اپنے مال ملا کر اکٹھا کر لیتے ہیں اور یوں ان کے مال میں شرکت قائم ہو جاتی ہے۔ پھر ڈائریکٹرز کا چناؤ کیا جاتا ہے جو اجرت اور بھتوں کے عوض میں اس مشترکہ سرمایہ پر کام کرتے ہیں اور نفع کو ہر ایک کے سرمایہ کے تناسب سے تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح سے یہ شرکت املاک ہے اور پھر شرکت عقد نہیں ہے اجارہ ہے۔ لیکن دارالعلوم کراچی کے ایک فتوے مورخہ 19 ربیع الثانی 1425ھ نے جس پر مولانا تقی عثمانی صاحب کے بھی دستخط ہیں ہماری تجویز کو رد کرتے ہوئے لکھا۔ ''کمپنی کے وجود میں آنے کے لیے ''عقد اجارہ'' ضروری نہیں ہے بلکہ اصلًا یہ ایک ''عقد مشارکہ'' ہے'' شاید اَب مولانا تقی عثمانی، مولوی عمران اشرف عثمانی اور دیگر اَرباب دارالعلوم ہماری تجویز پر دوبارہ غور کریں۔ اب ہم دوبارہ اصل موضوع کی طرف پلٹتے ہیں۔ کمپنی کے کام کی جو بھی حقیقت ہو اس کی اصل یہ تین بنیادیں ہیں : -1کمپنی کے ڈائرکٹران کے کام میں سال بھر تک کسی دوسرے کی طرف سے مداخلت نہ ہو۔ -2 ڈائرکٹران کو کام کے لیے جو مشترکہ سرمایہ حاصل ہوا ہے اس میں کمی نہ ہو۔ -3کمپنی کے ڈائریکٹران اور دیگر حاملین حصص کی ذمہ داری محدود ہو۔ کمپنی کو شخص قانونی بنانے کی وجہ : اِن تین بنیادوں کو بعینہ اِسی طرح لیں تو پہلی دو بنیادوں پر حقوق و ذمہ داریاں ڈائرکٹران اور حاملین حصص سے وابستہ ہوتی ہیں جو حقیقی اشخصاص ہیں اور تیسری بنیاد شرط فاسد ہونے کی وجہ سے لغو قرار پاتی