ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2008 |
اكستان |
|
رُوح کے اعتبار سے کمپنی شرکت عنان میں داخل ہے (امداد الفتاویٰ ص 37,464) اگرچہ کمپنی کی بعض ایسی خصوصیات ہیں جو معروف شرکت عنان میں نہیں پائی جاتیں لیکن ان کی وجہ سے عنان کی حقیقت تبدیل نہیں ہوتی۔ (ص 79) مولانا عثمانی صاحب کی یہ عبارت عجیب سی ہے۔ کمپنی اور شرکت کے درمیان فرق بیان کرتے ہوئے شرکت کو مطلق ذکر کیا جس کا مطلب ہوا کہ شرکت عقد کی جمیع صورتیں اس میں داخل ہیں خواہ وہ معروف چار ہوں یا ان کے علاوہ کوئی اور غیر معروف ہو اور کمپنی ان سب سے جدا ہے۔ پھر مولانا نے کمپنی کو شرکت کی (ایک اور) قسم بنالیا اور پھر مولانا تھانوی رحمة اللہ علیہ کی عبارت کی روشنی میں یہ بتا دیا کہ اس میں عنان کی حقیقت بھی باقی ہے۔ غرض کمپنی سے پہلے شرکت کی مطلقاً نفی کی، پھر اِس نفی کی نفی کرتے ہوئے اِس کو درجہ بدرجہ شرکت عنان میں داخل کر دیا اور اِن کے صاحبزادے مولوی عمران اشرف عثمانی صاحب نے تو اِس کے شرکت عنان ہونے کی کھلی کھلی تصریح کر دی۔ As mentioned in the books and research papers of Islamic jurists, companies come under the ruling of Shirkat-ul-Ainan.(Meazan Bank's guide to Islamic Banking) ''جیسا کہ فقہائے اسلام کی کتابوں اور تحقیقی مقالوں میں مذکور ہے کمپنیاں شرکت عنان کے تحت آتی ہیں''۔ مولانا تقی عثمانی مدظلہ کی مندرجہ ذیل یہ عبارت بھی اُن کے تذبذب کی وجہ سے ہے : ''… اسی طرح کمپنی ابتداء لوگوں کو اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ تم اس کاروبار میں ہمارے ساتھ شریک ہو جاؤ لہٰذا جو شخص اس وقت میں شیئر حاصل کر رہا ہے وہ گویا کہ شرکت کا معاملہ کر رہا ہے۔'' (شیئرز کی خرید و فروخت ص8) کیونکہ یہ کہنے کے بعد کہ ''تم اس کاروبار میں ہمارے ساتھ شریک ہو جاؤ'' اِس کہنے کا کیا مطلب