ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2008 |
اكستان |
|
قاضی تھے۔ اِن کارجال ِاحناف میں شمار غالباً اِسی وجہ سے ہے حالانکہ یہ اُن کی مجبوری تھی اُس وقت سلطنت کا قانون فقہ حنفی تھا قاضی ابویوسف قاضی القضاة تھے ۔اِس محکمے کی نوکری صرف ان کی چشم عنائت سے مل سکتی تھی، نہ بھی چاہتے ہوئے پھر بھی فقہ حنفی پر جبری عمل کرنا ہی پڑتاتھا۔قاضی تو عمروس البلاد بغداد میں محمد بن عمر واقدی بھی رہے جن کی روایت کو کوئی بھی قبول نہیں کرتا یہ آخر میں چونکہ ایک سازش کی و جہ سے نابینا ہو گئے تھے نوکری چھوٹ گئی تھی گھر بیٹھ رہے تھے اس لیے نوجوان طلاب نے اہل الروایة سمجھ کر ان کی روایت قبول کی ۔ رہا نفس تعدیل کا مسئلہ تو اصل یہ ہے کہ محدثین کا ذہن قبول روایت کی طرف مائل ہے ،جب تک خصوصی علت ِقادحہ نہ ہو وہ روایت کو ردّ نہیں کرتے ،اور جب روایت دُوسری سند سے بھی ثابت ہو تو اور کچھ نہیں مؤید ضرور ہوتی ہے۔ سب سے زیادہ قابل افسوس حالت ہم احناف کی ہے۔ حدیث کے معاملے میں ہم بالکل تہی دامن ہیں، حدیث میں ہماری کوئی معتبر کتاب نہیں ،صحاح ستہ میں ہمارا کوئی مصنف نہیں ہے ۔اصول ِحدیث میں ہماری کوئی کتاب نہیں ہے۔ تذکرۂ حفاظ ِاحناف کسی نے مرتب نہیں کیا۔امام ابوحنیفہ نے جن روایات پر اپنے مسلک کی بنیاد رکھی ہے وہ سب سے زیادہ مستند ہے کیونکہ اِن روایات میں وسائط کم ہیں یہ صحت ویقین سے زیادہ قریب ہیں مگر امام صاحب کی اَسناد سے ان کے حالات ہم نے تفحص کے بعد مرتب نہیں کیے۔ ہمارا درس حدیث مرعوبیت اور دفاعی اور معذرت کے انداز کا ہوتا ہے ۔ہماری بنیادی کوشش یہی ہوتی ہے کہ ہمارا مسلک حدیث کے خلاف نہیں ہے ہم نے اہل الروایة کے تمام اصول ِروایات کو من وعن تسلیم کرلیا ہے ،اور اَب عملاًاسی پر عامل ہیں۔ہم دوعملی میں گرفتار ہیں مقلد امام ابوحنیفہ کے ہیں اور صحیح روایات صحاح میں ہیں ،ہم یہ اعتقاد رکھتے ہیں اصح الکتب بعد کتاب اللہ بخاری ہے اور کتاب الآثار کی اس کے مقابلے میں کو ئی حقیقت نہیں۔اگر ہم سے کہا جائے دونوں کتابوں میں سے ایک اختیار کر لوتو ہم بخاری کو اختیار کریں گے ،ہم یہ سمجھتے ہیں کہ صحیح بخاری کا ایک شوشہ اور نقطہ بھی غلط نہیں ۔ہم بخاری کی ہر روایت کو صحیح ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگادیتے ہیں۔حالانکہ امام مسلم نے بخاری سے ایک روایت بھی قبول نہیں کی باوجود یکہ وہ اِن کے شیخ تھے۔امام ترمذی نے کہیںبھی امام بخاری کا مسلک بیان نہیں کیا ۔ہماری تمام ذہانت اس میں صرف ہوتی کہ ترجمة الباب کی حدیث سے کیا مطابقت ہے۔ وہ وہ نکات پیدا کرتے ہیں کہ خود امام بخاری کے