ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2008 |
اكستان |
|
وہم وخیال میںکبھی نہیںآئے ہوںگے ،ہمارے نزدیک امام بخاری تمام ائمہ سے بڑھ کر مافوق الانسان تھے۔ امام بخاری سے حدیث میں کبھی کوئی غلطی نہیں ہوئی۔ابن مندہ نے کہہ دیا تھا کہ امام بخاری مدلّس ہیں سب نے اِس کی تردید کی ۔آپ نے بھی ا مام محمد بن یحییٰ ذہلی کے معاملے میں اُن کی روش کا اظہار کیا ہے ۔ میری تحقیق کے مطابق امام بخاری کی کبھی محمد بن یوسف فریابی سے ملاقات نہیں ہوئی ۔ان کی وفات ٢١٢ھ میں ہے امام بخاری نے پہلا سفر ٢١٠ھ میںاپنے وطن سے حجاز کا کیا ہے دو سال تک حرمین میں رہے محمد بن یوسف فریابی نے ضعف کی وجہ سے عرصے سے سفر ترک کردیا تھا ۔امام بخاری نے اِن کی وفات کے عرصہ بعد شام کا سفر کیا ہے اور فریاب گئے ہیں ۔اور اُن کے وارثوں سے اُن کی روایات حاصل کی ہیں ،ان میں سے کچھ روایات اپنی کتاب میں درج کی ہیں ۔کہا جاتا ہے بخاری کے نزدیک کم ازکم ایک دفعہ راوی کا مروی عنہ سے لقاء ضروری ہے ۔اور اصطلاح محدثین میں ''حَدَّثَنَا'' کہنا لقاء کو ظاہر کرتا ہے مگر امام بخاری محمد بن یوسف کی روایت میں ''حَدَّثَنَا'' فرماتے ہیں تواِسے کیا کہا جائے گا ؟ یہاں عدم لقاء ثابت ہے اور ''وِجَادَہْ '' بھی نہیں ہے اور اگر ہے تو کہیں تصریح نہیں ہے ۔حافظ ابن حجر نے فرمایا کہ محمد بن یوسف سے بخاری نے ٢٢ روایات اپنی صحیح میں بیان کی ہیں ۔روایت ِتزوج میرے سامنے ہے اِس میں بخاری نے اس طرح روایت شروع کی ہے ''حدثنا محمد بن یوسف (الفریابی) قال حدثنا سفیان (الثوری)عن ہشام بن عروة '' اس روایت میں میں نے حافظ کی اِس قید ثوری کی وجہ سے یہاں سفیان ثوری مراد لیے ہیں ورنہ میرے نزدیک یہاں سفیان بن عیینہ مراد ہیں۔ اگر ایسا ہو تو روایت ِتزوج ہشام میں ایک راوی کم ہو جاتا ہے۔لکھنا تو بہت کچھ چاہتا تھا مگر تھک گیا ہوں اِس لیے ختم کرتا ہوں ۔آپ کی کتاب پر اپنے خیالات کا اِظہار پھر کروں گا۔حافظ مولانا عبد الشہید صاحب کی خدمت میں سلام ۔ دُعا گو نیاز احمدحقانی مطب بلاک نمبر 9 سرگودھا (جاری ہے)