ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2008 |
اكستان |
|
بے شمار تلمیذ ہیں علی بن مسہر بھی ہوں گے لیکن اِختصاص کی کوئی دلیل نہیں ہے کسی کے مختص لکھ دینے سے مختص نہیں ہوجاتا۔ امام طحاوی نے جن مختصین کا ذکر کیا ہے اُن میں علی بن مسہر نہیں ہیں، نہ دس میں اور نہ چالیس میں۔ فقہ حنفی عبارت ہے امام ابوحنیفہ اور اُن کے تلامیذ کے تحقیقی کام سے۔ فقہ حنفی کی توجیہ و تعبیر میں مسائل کے بیان میں آپ کا کوئی قول ہماری نظر سے نہیں گزرا، اُن کا کوئی علمی کام ہمارے سامنے نہیں ہے نہ حدیث میں نہ فقہ میں نہ اَدب میں نہ لغت میں۔ مشہور ائمہ حدیث میں سے اور حفاظِ حدیث میں سے براہِ راست کوئی اِن کا تلمیذ نہیں ہے۔ غیر معروف لوگوں نے براہِ راست اِن سے روایت لی ہے وہ بھی گنتی کے چند لوگ ہیں انہوں نے بھی ان کے نابینا ہونے کے بعد ان سے روایات لی ہیں جب کہ ان کی روایت کا اعتبار ہی نہیں رہا تھا۔ احناف میں سے کوئی ممتاز قابل ذکر عالم اِن کا تلمیذ نہیں ہے کسی فن کے ماہر ہونے کی حیثیت سے ان کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ صرف صحاح میں چند روایتیں آجانے سے آدمی فن کا ماہر نہیں بن جاتا۔ جعفر بن سلیمان صحاح کے راوی ہیں لیکن اُمی تھے اور شیعہ بھی تھے صرف زَاہد انہ ہیئت سے متاثر ہوکر جعفر بن سلیمان کی روایات کو اہل ِ سنت کے علماء نے قبول کیا ہے۔ علی بن مسہر کی روایت کو حفاظ ِ حدیث نے اِس لیے قبول کیا کہ نادر مضمون پر مشتمل تھی اور کسی سند سے تھی ہی نہیں۔ امام ابوحنیفہ کے معروف تلامیذ کو اربابِ صحاحِ ستہ نے نظر انداز کردیا ہے۔ ان کا کوئی تذکرہ متداول کتب ِ رجال میں نہیں ہے۔ کوئی معتبر روایت ان سے منقول نہیں ہے ان کتب میں اخذ حدیث کی بنیاد ہی تعصب پر مبنی ہے۔ آدمی کتنا ہی دیانتدار متقی اور پرہیزگار ہو مگر جب تک اَلْاِیْمَانُ قَوْل وَّ عَمَل کا قائل نہ ہو اس سے حدیث لیتے ہی نہ تھے۔ اہل ِ سنت کی تعریف ہی یہ تھی کہ وہ خلق ِقرآن کے مسئلے میں بات ہی نہ کرے پھر اصحابُ الروایہ اور اصحابُ الرائے دوگروہ الگ الگ کرکے اصحابُ الروایہ کی ہی روایت قبول کرتے تھے۔ کسی راوی کا اِن صحاح میں آنا خصوصیت سے صحیحین میں آنا اِس بات کی دلیل ہے کہ حنفیت اُسے چھوکر بھی نہیں گئی۔ ان سے روایت ہی اِس لیے لی ہے کہ وہ اصحابِ ابی حنیفہ میں سے نہیں تھے۔ تہذیب التہذیب میں کسی معروف حنفی کا تذکرہ نہیں ہے۔ علی بن مسہر اپنے وقت میں قاضی رہے ہیں لیکن یہ محکمۂ قضاء کی ملازمت قاضی ابویوسف کی مہربانی سے تھی یہ ان کے علم و فضل کی وجہ سے نہیں تھی جیسے کہ اُن کے حقیقی بھائی عبد الرحمن قاضی ابویوسف کی وجہ سے