ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2008 |
اكستان |
(١) سفیانِ ثوری بذاتِ خود بہت بڑے محدث اور فقیہ ہیں، علی بن مسہر سے متقدم ہیں۔ اِن کی پیدائش ٩٧ ھ ہے اِنہیں خود امام صاحب سے علی بن مسہر سے زیادہ قرب تھا۔ امام صاحب کے علوم کوئی لگی چھپی چیز نہیں تھی علماء کی مجلس میں مسائل پر کُھلی بحث و تمحیص ہوتی تھی وہ لکھ لی جاتی تھی پھر وہ اُن اہل ِ علم تک ہاتھوں ہاتھ پہنچ جاتی تھی جو اِس مجلس میں حاضر نہیں ہوتے تھے۔ آپ کے بقول امام ابوحنیفہ نے اپنے اُستاد حماد کی وفات کے بعد ١٢٠ ھ میں اُن کے مدرسے کا انتظام سنبھال لیا تھا اور دَرس دینا شروع کردیا تھا اُس وقت سفیانِ ثوری ٢٣ سال کے نوجوان تھے اور علی بن مسہر تین چار سال کے بچے تھے کیونکہ اُن کی ولادت ١١٦ ھ ہے۔ جس وقت علی بن مسہر کچھ اخذ کرنے کے قابل ہوئے ہوں گے … کیونکہ اہل ِ کوفہ عادتًا بیس کی عمر سے پہلے اَکابر کی مجالس میں حاضر ہوکر اخذ ِ حدیث نہیں کرتے تھے … اُس وقت تک سفیانِ ثوری کا اپنا حلقۂ درس قائم ہوچکا ہوگا یعنی ١٣٧ ھ میں … پھر اگر امام ثوری کو امام ابوحنیفہ کی فقہ لینی ہی تھی تو اُن کے کسی مختص معروف تلمیذ سے لینی چاہیے تھی جن کے اِستنباط کی خود فقہ حنفی میں کوئی قدر و قیمت ہے جیسے امام زُفر، امام ابویوسف، امام محمد وغیرہ۔ آپ نے مقدمہ کتاب التعلیم اَز مسعود ابن ِ شیبہ کا حوالہ دیا ہے اِس میں طحاوی کی کتاب اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ کا حوالہ ہے۔ آپ نے لکھا ہے یہ کتاب مجلس ِ علمی کے کتب خانے میں ہے اِس عبارت سے یہ ظاہر نہیں ہے کہ مقدمہ کتاب التعلیم ہے یا امام طحاوی کی اخبار ابی حنیفہ، جب تک اخبار ابی حنیفہ کی اصل عبارت سامنے نہ ہو کیا کہا جاسکتا ہے … زیادہ سے زیادہ آپ نے اِس حوالے کو امام طحاوی تک پہنچادیا آگے معلوم نہیں رُواة کی کیا حالت ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے یزید بن ہارون سے یہ روایت طحاوی کی اخبار میں آئی ہے تو اِس لحاظ سے امام طحاوی سن ٣٢١ اور یزید سن ٢٠٦ کے درمیان دو تین واسطے ہونے چاہئیں … اِس روایت سے اگر استدلال ہوسکتا ہے تو صرف اِتنا کہ امام ثوری نے امام ابوحنیفہ کی امالی کا کوئی مسودہ علی بن مسہر سے لے کر پڑھ لیا ہوگا، اِس سے یہ کہاں لازم آیا ہے کہ اِنہوں نے اپنی جامع علی بن مسہر کی مدد سے تیار کی اور وہ علی بن مسہر سے امام ابوحنیفہ کی فقہ اَخذ کیا کرتے تھے۔ (٢) علی بن مسہر کا اختصاصِ تلمذ : یہ بادی النظر میں ہی باطل ہے۔ امام ابوحنیفہ کے جہاں اور