ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2008 |
اكستان |
|
میرے خیال میں علی بن مسہر کی یہ تعدیل مبالغہ ہے۔ امام احمد نے اِن کے بارے میں توقف فرمایا ہے '' لَااَدْرِیْ کَیْفَ اَقُوْلُ کَانَ قَدْ ذَہَبَ بَصَرُہ فَکَانَ یُحَدِّثُہُمْ مِنْ حِفْظِہ''۔ (اِبْنِ نُمَیْر) ''قَدْ دُفِنَ کُتُبُہ وَھُوَ کَثِیْرُ الرُّوَاتِ مِنَ الْکُوْفِیِّیْنَ''۔ (تہذیب) ''جواہر مضۓہ '' میں ہے کہ یہ امام ابویوسف کے متوسلین میں سے تھے۔ اِن کے ایک بھائی عبدالرحمن کا ایک قصہ بھی لکھا ہے کہ وہ قاضی جیل تھے جب اِنہیں معلوم ہوا کہ ہارون الرشید دَورے پر آئے ہیں تو خود ہی اپنی تعریف کرنے دربار میں پہنچ گئے۔ قاضی ابویوسف اُن کی اِس تعریف پر زیر لب مسکراتے رہے۔ ہارون الرشید نے قاضی صاحب سے مسکرانے کا سبب پوچھا تو اُنہوں نے فرمایا ''یہ خود قاضی جیل ہے تو ہارون الرشید نے کہا '' ھَذَاالشَّیْخُ سَخِیْفُ الْعَقْلِ سَفْلَة '' اور قضاء سے معزول کرنے کا حکم دیا، اِلٰی آخِرِ الْقِصَّةِ۔(جواہر مضۓہ ) حافظ ابن ِ حجر نے تقریب میں اِن کے متعلق لکھا '' لَہ غَرَائِبُ بَعْدَ مَا اَخْتَرَ'' اِس ایک جملہ میں پوری جرح آگئی ہے۔ ابن ِسعدکا اکثری طریقہ یہی ہے ثِقَة کَثِیْرُ الْحَدِیْثِ یا ثِقَة قَلِیْلُ الْحَدِیْثِ یہ کثرت و قلت بھی اُن کی اپنی اِصطلاح ہے۔ کسی پہلے مصنف کا کسی کی تعدیل یا جرح میں کوئی ایک آدھ جملہ لکھ دینا حقیقت ِ حال کو واضح نہیں کرتا کچھ اور حالات و واقعات و قرائن کو بھی دیکھنا چاہیے کہ صحیح صورت حالات سامنے آجائیں۔ امام ابوحنیفہ کی جلالت ِ قدر اور اُن کے علمی کام کی وقعت اِس پر موقوف نہیں ہے کہ ہم چند غیر معروف اوسط العلم رُواةِ صحاح کو امام صاحب کا تلمیذ ثابت کردیں، میں مصنفین ِ احناف کو اِسی مرض میں مبتلا پاتا ہوں۔ امام صاحب کے فقہی مسلک کے عقلی و نقلی پہلو اِتنے روشن اور واضح ہیں کہ اگر ہم ایسے تلامیذ کے انتساب کا سہارا نہ بھی لیں تو وہ اپنی جگہ مستحکم اور مدلل ہیں۔ آپ نے لکھا ہے کہ امام ثوری نے امام صاحب کی فقہ کو علی بن مسہر سے اَخذ کیا ہے جو امام صاحب کے مختص تلامذہ میں سے شمار کیے جاتے ہیں(امام ابن ِ ماجہ ص١٨٤)۔ میرے نزدیک آپ کے یہ دونوں دعوے محل ِنظر ہیں۔ ١۔ سفیانِ ثوری کا علی بن مسہر سے اخذ ِ فقہ ٢۔ علی بن مسہر کا مختص تلامیذ میں شمار