ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2008 |
اكستان |
|
٢۔ میرے خط کے متعلق جو آپ تحریر فرمانا چاہتے ہیں ضرور تحریر فرمائیں میں ممنون ہوں گا۔ مزاج نام کی میرے ہاں کوئی چیز نہیں میں شروع سے اَب تک طالب علم ہوں بے تکلف اظہارِ خیال کو پسند کرتا ہوں اور خود بھی اِسی پر عمل کرتا ہوں مگر دِل آزاری سے بہت ڈرتا ہوں اور اِس سے بچنے کی کوشش کرتا ہوں مجھے آپ کے گرامی نامے کا شدت سے انتظار رہے گا۔ میرے ہاتھ میں رَعشہ ہے کبھی کبھی زیادہ ہوجاتا ہے۔ پچھلا خط مولاناسیف اللہ صاحب عثمانی سے نقل کراکر بھیجا تھا۔ یاد آوری کا شکریہ زیادہ کیا۔ دُعا گو نیاز احمد سرگودھا ٢١ اکتوبر ٨٠ ئ محترمی مولانا صاحب ! السلام علیکم میں نے آپ کی کتاب ''امام ابن ِماجہ اور علم الحدیث'' دیکھی۔ عمدہ کتاب ہے اور بڑی محنت سے ترتیب دی ہے مگر مجھے آپ کے بعض مندرجات سے اختلاف ہے مفصل رائے فرصت کے وقت لکھوں گا۔ اِس وقت میں اپنی کتاب کی ترتیب میں مصروف ہوں، میں نے اپنی کتاب میں بنیادی طور پر چار رُواة پر گفتگو کی ہے۔ (١) ہشام بن عروہ (٢) علی بن مسہر (٣) عبد الرزاق بن ہمام (٤) محمد بن مسلم زہری آپ نے علی بن مسہر کی بے حد تعریف فرمائی ہے حتّٰی کہ لکھ دیا ہے کہ امام ثوری نے اپنی جامع اِن کی مدد سے تیار کی تھی اگرچہ آپ نے مقدمۂ کتاب التعلیم کا حوالہ دیا ہے مگر جب تک امام طحاوی کی اصل عبارت سامنے نہ ہو کچھ کہنا مشکل ہے۔ حاشیے میں آپ نے لکھا ہے کہ امام احمد، یحییٰ بن معین، ابوزُرعہ، نسائی اور ابن ِ حبان نے متفقہ طور پر ثقہ کہا ہے۔ ص ١٨٤ الخ ۔ یہ خط کتابوں سے رُجوع کیے بغیر یاد داشت سے لکھ رہا ہوں۔