ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2008 |
اكستان |
|
آپ کے اِمتیازی اَوصاف تھے جوآپ کے چہرہ اورلباس وپوشاک سے صاف جھلکتے تھے، اَکابرعلمائے دیوبندسے تعلق اور اُن کی عقیدت و محبت آپ کے رَگ و پے میں بسی ہوئی تھی اُن کے عقائدونظریات کوحق جانتے تھے اوراُن سے انحراف کوکبھی برداشت نہیں فرماتے تھے۔ راقم الحروف کوحضرت صوفی صاحب سے نیازحاصل تھا، اَکثرمدرسہ نصرة العلوم کے سالانہ امتحان میں حاضری ہوتی توحضرت صوفی صاحب سے ملاقات کاشرف حاصل ہوتا ، حضرت صوفی صاحب دفترکے باہربرآمدہ میں بچھی ہوئی چارپائی پرتشریف فرماہوتے اوردیرتک گفت و شنیدمیں مشغول رہتے۔ چندسال پہلے حضرت سے ملاقات ہوئی توآپ نے جامعہ مدنیہ کے حالات کے بارے میں استفسارفرمایا،ناچیزنے تفصیل سے حالات بیان کیے تواطمینان کااظہارفرمایا، اِس موقع پرآپ نے احقرسے خاص طورپریہ بھی دریافت فرمایاکہ آ پ کاگھراپناذاتی ہے؟ میں نے عرض کیاکہ حضرت فی الحال توکوئی ذاتی جگہ نہیں ہے، فرمایااِس زمانہ میں اپناذاتی گھرہونابہت ضروری ہے اِس کے بغیرآدمی اِطمینان سے کسی جگہ بیٹھ کرکام نہیں کرسکتا، پھر فرمایا ایک زمانہ تھاکہ علماء محنت ومزدوری کرکے کماتے تھے اوربغیرکسی معاوضہ کے تدریس کیاکرتے تھے وہ بہت اچھے تھے، ایساہی ہوناچاہیے۔ راقم الحروف نے دبے لفظوں میں عرض کیاحضرت آپ کی دُعاسے یہ ناچیزبھی اپناکام کرتاہے اورمدرسہ سے تنخواہ نہیں لیتا۔اِس پرحضرت بہت خوش ہوئے اور فرمایابہت اچھاکرتے ہو، کوشش کروکہ گھربھی اپناذاتی ہوجائے۔ حضرت صوفی صاحب پیرانہ سالی اورضعف ونقاہت کے ساتھ ساتھ طویل عرصہ سے صاحب ِفراش تھے اسی وجہ سے آپ نے مدرسے کااہتمام اپنے بڑے صاحبزادے حاجی محمدفیاض صاحب کے سپرد کر دیا تھا تدریس کاسلسلہ بھی عرصہ سے منقطع تھا، آخری دنوں میں طبیعت زیادہ خراب ہوگئی علاج ہوتارہالیکن تدبیر پر تقدیر غالب آئی اورحضرت صوفی صاحب زندگی کی نوے بانوے بہاریں گزارکراپنے خالقِ حقیقی سے جاملے، اللہ تعالیٰ آپ کی بال بال مغفرت فرماکراپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا ء فرمائے اورآپ کے اَخلاف کوآپ کے نقشِ قدم پرچلنے کی توفیق مرحمت فرمائے، آمین بجا ہ سیدالمرسلین خاتم النبین سیدناومولانامحمدوآلہ واَصحابہ اجمعین۔