ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2008 |
اكستان |
|
عرصہ حکمت وطبابت کاکام بھی کیا۔ ١٩٥٢ ء میں آپ نے گوجر انوالہ میں مشہوردینی درس گاہ مدرسہ نصرة العلوم کی بنیادرکھی آپ مدرسہ کے مہتمم اورآپ کے بڑے بھائی حضر ت مولانا محمد سرفرازخان صاحب صفدرشیخ الحدیث مقررہوئے، حضرت صوفی صاحب نے اہتمام کے ساتھ تدریس کاشغل بھی اپنایاااورمختلف علوم وفنون کی بڑی بڑی کتابوں کادرس دیا۔ مدرسہ نصرة العلوم کی وسیع وعریض مسجدنورمیں آپ نے تقریبًاپچاس برس خطابت کے فرائض انجام دیے آپ کامعمول تھاکہ آپ نمازفجرکے بعد ہفتہ میںچاردِن قرآن کریم کادرس دیاکرتے تھے جس میں کثیرتعدادمیں علماء وعوام شریک ہوتے تھے، درس کایہ سلسلہ تقریبًا اَڑتیس برس تک جاری رہا۔ حضرت صوفی صاحب ایک بہترین مدرس اورحق گوخطیب ہونے کے ساتھ ساتھ تصنیف وتالیف کابھی عمدہ ذوق رکھتے تھے ، بہت سی چھوٹی بڑی کتابیں آپ کی یادگارہیں جن میں سے درج ذیل کتب نمایاں ہیں : (١) تفسیرمعالم العرفان فی دروس القرآن ،بیس جلد (٢) دروس الحدیث ،٤جلد (٣) خطبات سواتی ، ٦ جلد(٤) شرح شمائل ترمذی، ٢جلد (٥) شرح ابن ماجہ ،١ جلد (٦) شرح جامع ترمذی (ابواب البیوع )، اجلد(٧) مقالاتِ سواتی (٨) نمازِ مسنون کلاں (٩) تشریحات سواتی (١٠) الاکابر ۔ حضرت صوفی صاحب کوچونکہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب اوراُن کے خانوادہ کے علوم وافکارسے طبعی مناسبت تھی اِس لیے آپ کی توجہ اُن کے علوم وافکارکی تشریح وتوضیح کی طرف زیادہ رہی ،یہی وجہ ہے کہ آپ نے حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کی معروف کتاب ''حجة اللہ البالغة '' تقریبًا ٣٢ مرتبہ پڑھائی نیزحضرت شاہ ولی اللہ صاحب اورآپ کے صاحبزادگا ن کی بہت سی نایاب کتابوں کوترجمہ وتصحیح کے ساتھ شائع کروایا۔ حضرت صوفی صاحب کو شیخ الاسلام حضرت مولاناسیدحسین احمدمدنی سے والہانہ تعلق تھا آپ حضرت کے شاگردبھی تھے اورحضرت ہی سے بیعت کاتعلق بھی تھا اسی کااَثرتھاکہ آپ کی زندگی میں اتباعِ سنت اوراتباعِ شریعت کارنگ جھلکتاتھا۔آپ مسلمانوں کی سچی ہمدردی اورخیرخواہی کاجذبہ رکھتے تھے، مسلمانوں کی بدحالی پرتڑپتے اورکُڑھتے تھے اورموقع بہ موقع اُن کوبنیادی خرابیوں سے آگاہ فرماتے تھے حضرت صوفی صاحب کے درس قرآن اورخطباتِ جمعہ سنے والے بہت سے افراداِن اُمورکے شاہدہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کوعلم و عمل کے ساتھ ساتھ بہت سی خوبیوں سے نوازاتھا، سادگی تواضع ومسکنت