ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2008 |
اكستان |
|
یَھْدِمُ الْاِسْلَامَ ضَلَّةُ الْعَالِمِ وَجِدَالُ الْمُنَافِقِ بِالْکِتَابِ وَحُکْمُ اَئِمَّةِ الْمُضِلِّیْنَ اِسلام کو تین چیزیں ڈھادیتی ہیں ایک عالم کی غلطی ہے طالب علم کی غلطی یا عالم کی غلطی غلط رائے غلط فکر غلط سوچ غلط عمل غلط مظاہرہ اِس کے بڑے زبردست اَثرات پڑے ہیں اِس سے نقصان پہنچتا ہے اور ایسے شخص کا مناظرہ کرنا بحثیں کرنا جس کے اَندر نفاق ہے ایمان نہیں ہے دلیلیں قرآن سے لے رہا ہے اور خود دل کے اَندر اُس کے ایمان مضبوط نہیں ہے تو ایسا آدمی قرآن ہی کو ڈھاکر رکھ دیتا ہے اور تیسرے نمبر پر جو حکمران ہیں گمراہ کُن وہ تباہ کردیتے ہیں پورے معاشرے کو پورے ملک کو تباہ کردیتے ہیں۔ یہ جو بات فرمائی گئی حدیث میں اِسی کی ترجمانی کی تھی حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمة اللہ علیہ نے وَمَا اَفْسَدَ الدِّیْنَ اِلَّا الْمُلُوْکُ وَاَحْبَارُ قَوْمٍ وَرُھْبَانُہَا دین کو بگاڑنے والے تین طبقے ہیں حاکم، مُلّا اور صوفی۔ فرمایا یہی تین طبقے بنتے ہیں تو دُنیا سنور جاتی ہے یہی بگڑتے ہیں تو دین کو تباہ کردیتے ہیں۔ ایک دُنیادار عالم شیطا ن سے زیادہ خطرناک بن جاتا ہے جس کے سامنے دُنیا ہے وہ دُنیاچاہتا ہے دین نہیں چاہتا دین کا لبادہ اَوڑھتا ہے لیکن دُنیا مطلوب ہے اُس کے دل میں دُنیا بنی ہوئی ہے یہ خطرناک قسم کا ڈکیت بن جاتا ہے۔ ایسے ہی وہ صوفی جو دَرویشانہ لباس تو پہنے ہوئے ہے لیکن اُس کے دل میں چور چھپے ہوئے ہیں وہ عوام کا استحصال کرتا ہے۔ اور رہ گئے حاکم ظالم قسم کے وہ تو قوموں کو تباہ کردیتے ہیں تو وَمَا اَفْسَدَ الدِّیْنَ اِلَّاالْمُلُوْکُ وَاَحْبَارُ قَوْمٍ وَرُھْبَانُہَا تو کتنی خطرناک بات ہے۔ کہتے ہیں کہ نیم مُلّا خطرۂ ایمان اور نیم حکیم خطرۂ جان۔ اگر نیم حکیم ہے کوئی میڈیکل کالج میں اُس نے اچھی پڑھائی نہیں پڑھی غلط دَوا دے دے گا جان جائے گی بہت بڑا نقصان ہوگا لیکن ایمان تو نہیں جائے گا تو معلوم ہوا کہ یہ مُلّا جو ایمان ختم کردیتا ہے ڈاکٹر سے زیادہ مُضر ہے، ڈاکٹر کی دَوا سے نقصان جسم کو ہوا نزلہ ٹھیک نہیں ہوا آپ کا، پیٹ ٹھیک نہیں ہوا آپ کا، دَوا غلط دے دی اُس نے تو اِس سے نقصان جسم کا ہوگیا اُسے آپ برداشت کرلیں گے اور کوئی نقصان ہوا بھی تو آخرت میں سزا نہیں پائیں گے۔ لیکن یہ نیم مُلّا غلط فتوٰی دے گا غلط رہنمائی کرے گا غلط تقریر کرے گا غلط بات کرے گا غلط عمل کرے گا تو یہ تو ایمان کو تباہ کردے گا یہ زیادہ مُضر ہوا یا ڈاکٹر زیادہ مُضر ہوا؟ لہٰذا علم کی تکمیل کی ضرورت ہے علم ناقص نہ رہے اور جب تک علم ناقص ہو اور اَخیر اَخیر تک سمجھئے کہ میرا علم ناقص ہے تو زبان مت کھولیے علم کے نقص کا اِعتراف کیجیے میں ناقص ہوں،