ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2008 |
اكستان |
|
بعد اسقاطِ حمل بالکل حرام ہے اور اِس کا مرتکب قتل کا مرتکب شمار ہوگا۔ اِس مدت سے پیشتر یہ فعل بغیر کسی شدید قابل ِ اعتبار عذر کے مکروہ ہے اگرچہ وہ قتل ِ نفس نہ ہوگا۔ شرعًا قابل ِ اعتبار عذر کی چند مثالیں یہ ہیں : -i حمل ٹھہرگیا ہو لیکن بعض اَمراض کی بناء پر حمل کے بار کا تحمل نہ ہو۔ -ii حمل کے ظہور سے عورت کا دُودھ ختم ہو اور پہلے سے موجود شیر خوار بچے کی اِس وجہ سے ہلاکت کا اَندیشہ ہو۔ -3 مصنوعی بانجھ پن : ضبط ِ ولادت کی وجہ سے مرد کوئی آپریشن کرائے یا عورت کوئی آپریشن کرائے سب ناجائز اور حرام ہیں۔ اِسقاط کی وجہ سے جنین کی موت ہوجانے کے احکام : -1 جب حاملہ نے خود اِسقاط کا کوئی طریقہ اختیار کیا ہو۔ -i حاملہ نے شوہر کی رضامندی و اجازت کے بغیر عمدًا اِسقاط کیا خواہ کسی بھی قدیم یا جدید طریقے سے۔ اگر بچہ مُردہ پیدا ہو تو عورت کی عاقلہ (یعنی اُس کی برادری) پر ایک سو اکتیس تولہ تین ماشہ چاندی ایک سال میں واجب الاداء ہوگی۔ -ii اگر شوہر کی اجازت سے کیا تھا تو پھر عورت کی عاقلہ پر تاوان نہ آئے گا۔ -iii اگر بچہ زندہ پیدا ہوا لیکن پھر مرگیا تو عورت کے ذمّہ پوری دیت اور کفارہ دونوں آئیں گے اگرچہ شوہر نے اجازت ہی کیوں نہ دی ہو کیونکہ اِس صورت میں جرم ایسی جان پر ثابت ہوا جو فی الواقع زندہ پیدا ہوئی اور اِس میں کسی کی اجازت کا اعتبار نہیں جبکہ اُوپر کے مسئلہ میں جرم ایسی ذات پر ہوا جو فی الواقع زندہ پیدا نہیں ہوئی اور اُس کا زندہ پیدا ہونا مشکوک تھا کیونکہ حمل اور وضع ِ حمل کے حالات پُر خطر ہوتے ہیں۔ تنبیہ : مذکورہ بالا صورتوں میں عورت جنین اور بچے کے مال میں وراثت سے محروم رہے گی۔ -2 جب کسی دُوسرے نے حاملہ کے پیٹ یا پشت وغیرہ پر ضرب لگائی ہو : -i جنین مردہ پیدا ہوا تو ضارب کی عاقلہ پر ایک سو اکتیس تولہ تین ماشہ چاندی کا ( باقی صفحہ ٦٣ )