ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2008 |
اكستان |
|
مدارس میں مجالس ِذکر کی ضرورت وا ہمیت تمہید از حضرت شیخ الحدیث رحمة اللہ علیہ کراچی میں اوّلاً مفتی محمد شفیع صاحب کے مدرسہ میں اُن کی عیادت کے لیے جانا ہوا ،مفتی صاحب ضعف کی حالت میں چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے ،زکر یا کو دیکھتے ہی بہت اظہارِ مسرت کیا ، ایک گھنٹہ زکریا اُن کے پاس برابر کی چار پائی پر لیٹا رہا ، اَحباب ناشتہ وغیرہ کرتے رہے ،دوچار پائیاں برابر تھیں میں اور مفتی صاحب اِس طرح لیٹے تھے کہ ایک چار پائی پر یہ ناکارہ اور دُوسری پر مفتی صاحب ،سردونوں کے آمنے سامنے اور پاؤں الگ الگ ۔ مفتی صاحب نے اپنے مدرسہ کی بہت ہی شکایات کیں، طلبہ کی طرف سے ،حکومت کی طرف سے اور یہ کہ بعض طلبہ پڑھنا تو اِن کا مقصود نہیں ہوتا،غیروں کے تنخواہ دار محض فساد ڈالنے کے لیے ہمارے مدرسہ میں طالب علم بن کر داخل ہوتے ہیں مفتی صاحب نے اِس کی بہت سی جزئیات بتائیں ۔ زکریا نے بڑے اہتمام سے ساری گفتگو سُنی اور کہا کہ یہ اشکالات آپ ہی کے یہاں نہیں ہم سب مدارس والوں کو پیش آتے ہیں صورت میں کچھ تھوڑا بہت فرق ہو جاتا ہے، ہمارے یہاں کے اسٹرائک سنہ ١٣٨٢ھ میں اِس کے بڑے تجربات ہوئے کہ مدارس بلکہ اسلام کے مخالف لوگوں نے بعض لوگوں کو تنخواہیں دے دے کر ہمارے اسٹرائک میں شریک کیا۔میرے نزدیک تو اِن سب کاواحد علاج ذکر اللہ کی کثرت ہے کہ جب کوئی بھی اللہ تعالیٰ کا نام لینے والا نہ ہوگا تو قیامت قائم ہوجائے گی، جب اللہ تعالیٰ شانہ' کا پاک نام ساری دُنیا کو تھامے ہوئے ہے تومدارس کی کیا حقیقت ؟اور پھر مکہ مکرمہ پہونچنے کے بعد میں نے اِس مضمون کو یاد دہانی کے طور پر مفتی صاحب کو اور مولانا بنوری کو الگ الگ لکھے۔ خصوصی مضامین کے علاوہ مشترک مضمون دونوں میں یہ تھا : مکتوب بنام مولانا یوسف بنوری و مفتی محمد شفیع رحمہما اللہ تعالیٰ مدارس کے روزاَفزوں فتن، طلبہ کی دین سے بے رغبتی، بے توجہی اورلغویات میں اشتغال کے متعلق کئی سال سے میرے ذہن میںیہ ہے کہ مدارس میں ذکر اللہ کی بہت کمی ہوتی جارہی ہے بلکہ معدوم،بلکہ اِس لائن سے تو بعض میں تنفر کی صورت دیکھتاہوں جو میرے نزدیک بہت خطرناک ہے، ہندو ستان کے