ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2008 |
اكستان |
|
حرف ِمخلصانہ از حضرت مولانا محمد طلحہ صاحب کاندھلوی مدظلہم : ہندوستان میں اِسلام کی نشاَتِ ثانیہ اورعوام الناس میں دینی بیداری پیدا کرنے کے سلسلہ میں مدارس اسلامیہ کاجو کرداررہا ہے وہ روزِ روشن کی طرح عیا ں ہے حتّٰی کہ اِسلام دُشمن طاقتوں کواَب مدارس کا وجود ہی کھٹکنے لگا ہے چنانچہ ایک طرف اِن مدارس کو شک کی نگاہوں سے دیکھا جانے لگا ہے تو دُوسری طرف خود مسلمانوں کی صفوں میں ایسے اَفراد کو استعمال کیا جانے لگا ہے جو اِن مدارس سے عوام کو کاٹنے اُن کا علماء کرام پرجو اعتمادتھا اُسے ختم کرنے اوراُن سے برگشتہ کرنے کے سلسلہ میں کوئی کسرنہیں چھوڑتے۔ تیسری طرف یہ تلخ حقیقت بھی ہے کہ خود اہل ِمدارس کے دلوں سے اُن کی اِس متاع ِگراں مایہ کی قدرو قیمت نکلتی جارہی ہے، مداراس جن کے قیام کا مقصدصرف اللہ کے دین کی سر بلندی تھا عوام الناس کی صلاح و فلا ح کی خاطر ا کابرِملت رحمہم اللہ نے جن کی داغ بیل ڈالی تھی وہ اپنی مقصدیت اور افادیت کھوتے جارہے ہیں جن کا اصل سرمایہ اخلاص اور توکل علی اللہ تھا وہ بڑی تیزی سے مادیت کے سیل رواں کی زر میں آتے جارہے ہیں، کارکنان میں اخلاص کے بجائے حب جاہ، اقتدار کی رسہ کشی، قومی سرمائے اور وقف کی اِملاک کے ساتھ بے اِحتیاطی اور اصل مقصد سے غفلت روز بروز بڑھتی جارہی ہے، اَساتذۂ کرام اور طلبۂ عزیز کے باہمی رشتے کمزور سے کمزورتر ہوتے جارے ہیں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی طرح ایک دُوسرے سے بے گانگی اور بے ربطی روز بروز بڑھتی جارہی ہے، اَساتذہ اپنی ذمّہ داری بس اتنی سمجھتے ہیں کہ ضابطہ کے مطابق اَوقات ِتعلیم میں دَرس کا مضمون بیان فرمادیں اوربس، نہ تو طلبہ کی نگرانی کی جاتی ہے اورنہ ہی اُن کی دینی، اَخلاقی اورعملی تربیت کی طرف خاطر خواہ توجہ کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں مدارس میں رہنے والے طلبہ کی جانب سے آئے دن اسڑائک اورپوسٹر بازیاں ہوتی رہتی ہیں اورر سمی فراغت کے بعددین اورعلم ِدین کی خدمت کے بجائے مسلم معاشرے میںاُن کے ذریعہ شروفساد ہی پھیلتا ہے۔ اِس کی وجہ میرے والد ِگرامی حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب نور اللہ مرقدہ' کی نظر میں مدارس کا مجالس ِذکر سے خالی ہونا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا پاک نام توپوری کائنات کو تھامے ہوئے ہے، مدارس جو صرف قال اللّٰہ وقال الرّسول کی تعلیم و تبلیغ کے لیے قائم کیے گئے ہیں بھلا یہ پاک نام اِن کے لیے محافظ کیونکر نہ ہوگا۔ (آپ بیتی ٧٤٨٢) میں بڑے سوزودَرد کے ساتھ لکھتے ہیں :