ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2008 |
اكستان |
|
دینی مسائل ( ضبط ِ ولادت ) ضبط ِولادت کے مختلف طریقے اور اُن کے اَحکام یہ ہیں : -1 منع حمل (Contraception) : یعنی کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا کہ حمل نہ ٹھہرے خواہ اِس کے لیے عورت گولیاں کھائے یا انجکشن لگوائے یا رحم میں چھلّا رکھوائے یا مرد اپنے عضو پر غبارہ (Comdom) چڑھالے۔ حکم : خاص خاص ضرورتوں کے تحت شخصی و اِنفرادی طور پر ایسا کرنا جائز ہے مثلاً -i عورت اتنی کمزور ہے کہ حمل کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتی۔ -ii عورت کسی دُور دراز کے سفر میں ہے یا دُور کے پُر مشقت سفر مثلاً حج کا قصد ہے۔ -iii زوجین کا باہمی تعلقات ہموار نہیں اور علیحدگی کا قصد ہے۔ اِن سب اعذار کا خلاصہ یہ ہے کہ شخصی و اِنفرادی طور پر کسی شخص کو عذر پیش آجائے تو عذر کی حد تک اِس طرح کا عمل بلاکراہت جائز ہوگا۔ بغیر عذر کے یہ عمل مکروہ ہے اور اِس طرح عذر دُور ہوجانے کے بعد بھی اِس پر مداومت مکروہ ہے۔ اگر کوئی ایسی غرض یا ایسا خود ساختہ عذر ہو جو اسلامی اُصولوں کے خلاف ہو تو یہ عمل ناجائز ہوگا مثلاً -i اگر لڑکی ہوگی تو بدنامی ہوگی۔ -ii مفلسی کا ڈر ہو۔ تنبیہ : ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر ضبط ِ ولادت کی جو تحریک چلائی جاتی ہے وہ چونکہ اِس بنیاد پر قائم ہے کہ اگر آبادی زیادہ ہوگئی تو کہاں سے کھائے گی اور اِس کے لیے وسائل کہاں سے مہیا ہوں گے اِس لیے یہ تحریک بھی حرام ہے اور اِس فکر کے تحت ضبط ِ ولادت کرنا بھی ناجائز ہے۔ -2 اِسقاط : حمل کو جب ایک سو بیس دن گزرجائیں تو جنین میں رُوح پھونک دی جاتی ہے لہٰذا اِس مدت کے