ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2008 |
اكستان |
|
شام میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے اختلاف : اختلاف یہ ہوا تھا کہ یہ آیت کہ روپیہ پیسہ جمع کرنے والے جو ہیں اُن کو داغا جائے گا جہنم میں یہ آیت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کہتے تھے کہ یہ اہل ِکتاب کے بارے میں تھی جنہوں نے توجیہ کی اور مال پیسہ جمع کرتے رہے زکوٰة بھی نہیں دیتے تھے۔ ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے فِیْنَا وَفِیْھِمْ ہمارے اوراُن کے سب کے بارے میں یہ ہے یہ آیت تو اُن کامسلک یہ تھا۔ مولانا عبید اللہ سندھی کی عادت : مولانا عبیداللہ سندھی کی یہی عادت تھی یہ فطرت ہے بالکل پیسہ رکھتے ہی نہیں تھے اور جہاں سائل ملا دے دِیے۔ تو دہلی میں رہتے رہے ہیں یہ جمعیت کے دفتر میں تشریف لاتے تھے اوروہاں سے جامعہ ملیہ تشریف لے جاتے تھے تو لوگ کرایہ دیتے تھے جانتے تھے کہ پیسہ اِن کے پاس ہوتا ہی نہیں تو کرایہ دے دیتے تھے جمعیت کی طرف سے، اَب وہاں سے نکلے گلی میں سے دفتر میں سے اور کوئی مل گیا سائل تو اُس کو دے دیتے اور خود پیدل چلتے میلوں، کئی میل ہیں پانچ چھ میل تو وہاں وہ پیدل جاتے تھے۔ یہ صحیح ترین باتیںہیں جو میں سنا رہا ہوں جیسے آپ خود اپنی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں تو جماعت والوں نے تدبیر یہ کی کہ جس سواری میں بھیجنا ہو اُس میں خود سوارکر اکے آتے تھے تاکہ ایسا نہ ہو کہ وہ پھرکسی کودے دیں اورخودپیدل چلے جائیں۔ تو یہ کیا ہے؟ یہ فطرت ہے کوئی آدمی کرنا چاہیے اِس طرح، نہیں کر سکتا اور وہ خود اِس کے اُلٹ کرنا چاہیں جیسے آپ کرتے ہیں وہ بھی نہیں کرسکتے تو وہ نہیں رَکھ سکتے تھے اپنے پاس پیسہ۔ مگر اِسلام نے تو وہ طریقہ رکھا ہے اعتدال والا جو سب کے لیے ہو جائے لہٰذا یہ سمجھئے آپ کہ جب کسی کے پاس روپیہ زیادہ ہو جائے اُس کی ضرورت سے اَب چاہے وہ زکوٰة بھی دے چکا ہومگر جو آس پاس پڑوس میں محتاج ہیں یا اُس کے رشتہ دار ہیں اُن پر اُس کو پھر بھی خرچ کرتے ہی رہنا چاہیے یہ سوچے لے کہ میں تو زکوٰة دے چکا میری بلا سے تویہ ٹھیک نہیں ہے اَخلاقی اور اِنسانی اعتبار سے بہت گری ہوئی بات ہے اِس کو خودغرضی اور بے حسی کہا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو مال ودُنیا کی محبت سے بچا ئے اور صحیح معنٰی میں زُہد وتقوٰی سے نواز ے، آمین۔ اِختتامی دُعاء ……