ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2008 |
اكستان |
|
اور اِس طرح کے بہت سے اُمور قبیحہ ہیں جو اِن دنوں میں کیے جاتے ہیں اُن کا اختیار کرنا اور ایسے مجمع میں جانا سب حرام ہے اور یہی تمام تر فضیحتیں پھر چہلم کو دُہرائی جاتی ہیں۔ قسم دوم کے منکرات : (١) کھچڑا یا اور کچھ کھانا پکانا اَحباب یا مساکین کو دینا اور اِس کا ثواب حضرت امام حسین کو بخش دینا، اِس کی اصل وہی حدیث ہے کہ جو شخص اِس دن میں اپنے عیال پر وسعت دے، اللہ تعالیٰ سال بھر تک اُس پر وسعت فرماتے ہیں۔ وسعت کی یہ بھی ایک صورت ہوسکتی ہے کہ بہت سے کھانے پکائے جاویں خواہ جدا جدا یا ملاکر کھچڑا میں کئی جنس مختلف ہوتی ہیں اِس لیے وہ اِس وسعت میں داخل ہوسکتا تھا۔ چنانچہ دُرمختار میں ہے وَلَا بَأْسَ بِالْمُعْتَادِ خَلَطًا وَّیُوَجِّہُ جب اہل و عیال کو دیا کچھ غریب غرباء کو بھی دے دیا۔ حضرت امامین(حضرت امام حسن و حضرت امام حسین) کو بھی ثواب بخش دیا۔ مگر چونکہ لوگوں نے اِس میں طرح طرح کی رسوم کی پابندی کرلی ہے گویا خود اِس کو ایک تہوار قراردے دیا ہے اِس لیے رسم کے طور پر کرنے سے ممانعت کی جائے گی۔ بلا پابندی اگر اِس روز کچھ فراخی خرچ میں کھانے پینے میں کردے تو مضائقہ نہیں۔ (٢) شربت پلانا : یہ بھی اپنی ذات میں مباح تھا، کیونکہ جب پانی پلانے میں ثواب ہے تو شربت پلانے میں کیا حرج تھا؟ مگر وہی رسم کی پابندی اِس میں بھی ہے اور اِس کے علاوہ اِس میں اہل رِفض کے ساتھ تشبہ بھی ہے، اس لیے یہ بھی قابل ِترک ہے۔ تیسرے اِس میں ایک مضمر خرابی یہ ہے کہ شربت اِس مناسبت سے تجویز کیا گیا ہے کہ حضرات شہدائے کربلا پیاسے شہید ہوئے تھے اور شربت مسکن عطش(پیاس بجھانے والا) ہے، اِس لیے اِس کو تجویز کیا۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے عقیدہ میں شربت پہنچتا ہے جس کا باطل اور خلاف ِقرآن مجید ہونا فصل دوم میں مذکور ہوچکا ہے اور اگر پلانے کا ثواب پہنچتا ہے تو ثواب سب یکساں ہے، کیا صرف شربت دینے کو ثواب میں تسکینِ عطش کا خاصہ ہے۔ پھر یہ بھی اِس سے لازم آتا ہے کہ اُن کے زعم میں اَب تک شہدائے کربلا نعوذ باللہ پیاسے ہیں، یہ کس قدر بے اَدبی ہے۔ اِن مفاسد کی وجہ سے اِس سے بھی احتیاط لازم ہے۔ (٣) شہادت کا قصہ بیان کرنا : یہ بھی فی نفسہ چند روایات کا ذکر کردینا ہے۔ اگر صحیح ہوں تو روایات کا بیان کردینا فی ذاتہ جائز تھا مگر اِس میں یہ خرابیاں عارض ہوگئیں :