ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2008 |
اكستان |
|
عورتوں کے رُوحانی اَمراض ( از اِفادات : حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ ) بھابھی کا غصہ اوریتیم دیور پر ظلم و زیادتی : بہت جگہ ایسا ہوتا ہے کہ گھر کا کوئی بزرگ مرگیا اوربڑی اَولادکے ساتھ چھوٹے بچے بھی چھوڑے۔ وہ چھوٹے بچے بڑے بھائیوں کی پرورِش میںآجاتے ہیں اوربھاوج کا اِختیار ہوتا ہے، چونکہ بچے گھر میں رہتے ہیںاِس واسطے اُن کی نگرانی وغیرہ عورتوںہی کے ہاتھ میں زیادہ رہتی ہے۔ بڑابھائی باہر رہتا ہے اور بھاوج صاحبہ اُن سے دل کے کینے نکالتی ہیں، ہر بات پر مارنا اور بُرابھلا کہنا، ہرچیز کوترسانا، کھانا پیٹ بھر کر نہ دینا، کپڑے کی خبر نہ لینا اور نوکروں سے زیادہ ذلیل کر کے اُن کو رکھنا، یہ اِن کا برتاؤ رہتا ہے اور اِس پر بھی چین نہیں، بطورِ حفظ ِماتقدم خاوند سے اُلٹے شکایت کرتے رہنا،غرض ایسے خلافِ انسانیت برتاؤ رکھتی ہیں کہ جن کابیان کرنا بھی مشکل ہے۔ میں مردوں کو بھی خطاب کرتا ہوں کہ یتیم بچوں کی خود بھی نگرانی رکھو، عورت کے کہنے میں ایسے نہ رہو کہ ہربات کوسچ جان لو۔ جب یہ کھلی ہوئی بات ہے کہ بھاوج دیوروں کے ساتھ مغائرت (غیریت) کا تعلق رکھتی ہے تو اِس کی شکایتوںکا کیا اعتبار۔ میں تو کہتا ہوں کہ ایسے موقعوں پر مردوں کو چاہیے کہ عورتوں کو سنادیں کہ تم سچ بھی کہتی ہو تو بھی ہم جھوٹ سمجھیں گے۔ میں سب مردوں کو نہیں کہتا کہ بہت سے مردایسے بھی ہیں جو واقعی مردہیں اور ایسے موقع پر پوری عقل سے کام لیتے ہیں اور اِس ساتھ رہنے کو بھیڑیے بکری کا ساتھ سمجھتے ہیں جہاں بھیڑیا بکری اکٹھے ہوں گے وہاں بھیڑیے کی طرف سے بکری کے ساتھ اِیذاء (تکلیف)رسانی ہی ہوگی کبھی نہیں کہا جاسکتا کہ بھیڑیا بکری کی طرفداری یااُس پر رحم کرے گا۔ عورت کے کہنے سے بھائیوں کو نہ ستاؤ، کسی نے خوب کہا کہ یتیم بچہ زندہ میں شمارہی نہیں ہوتا اپنے ماں باپ کے ساتھ وہ بھی مر گیا۔ پھر مرے ہوئے کو مارناکیا جوانمردی ہے۔ اگر حد سے زیادہ دِلداری کرو گے تب بھی اُس کا دل زندہ نہیں ہو سکتا، یتیم کی صورت میں مُردنی چھائی ہوئی ہوتی ہے، دو بچوں کو برابر بٹھاؤ جن