ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2008 |
اكستان |
|
گیا ہے وہ بھی ایک رُوٹین وَرک بن گیا ہے کچھ سکولوں میں پڑھ رہے ہیں تو کچھ مدرسوں میں پڑھ رہے ہیں کچھ مسٹر بن رہے ہیں تو کچھ مُلّا بن رہے ہیں یعنی بس دو قسمیں ہیں معاشرے میں جو وجود میں آرہی ہیں۔ ایک دُھن اور ایک فکر اِس کی کہ دین کی نصرت کرنا ہے اُسے پھیلانا ہے ہر بندے تک اُس کو منتقل کرنا ہے خود اُس پر عمل کرنا ہے اُس کا پابند ہونا ہے اِس جذبے کے ساتھ اور اِس خلوص کے ساتھ پڑھنے والا جو طالب علم ہے اُس کی بات ہی کچھ اَور ہے اور اُس کے ساتھ پھر اللہ کا معاملہ بھی دُوسرا ہوتا ہے۔ بسا اَوقات طالب علم سبق نہیں سمجھتا ہے اِستعداد کمزور رہتی ہے اِس لیے کہ نیت کمزور رہتی ہے اِس لیے یہ رُکاوٹ ہورہی ہے وہ خود اپنے لیے رُکاوٹ بنا ہوا ہے، وہ ترقی نہیں کررہا ہے اِس لیے کہ اُس کے دماغ میں وَسوسے بھرے ہوئے ہیں گناہ بھرے ہوئے ہیں وہ گناہوں سے اپنے کو فارغ نہیں کرپارہا ہے وہ ذہنی یکسوئی نہیں حاصل کرپارہا ہے تو جب یکسوئی نہیں دماغ میں، تشویشات ہیں وَساوس ہیں طرح طرح کے خیالات بھرے ہوئے ہیں بے شمار مسائل ہیں خاندان کے مسائل معاشرے کے مسائل اور طرح طرح کے مسائل وہ اُلجھنیں ہیںجو دماغ میں چھائی ہوئی ہیں اور اُن کی وجہ سے انسان کے بہت سے اَعمال خلافِ شریعت بھی ہورہے ہیں تو پھر کیسے یکسوئی حاصل ہوگی اور بغیر یکسوئی کے کیسے نیت مستحکم ہوگی؟ اور جب نیت مستحکم نہیں ہوگی تو پڑھنے پڑھانے میں کیا مزا آئے گا اور کیسے پھر دماغ کُھلے گا اور شرحِ صدر کیسے نصیب ہوگا؟ تو اللہ کی طرف پوری توجہ کرکے اللہ سے شرحِ صدر کی دُعاء کی جائے کہ اے اللہ وہ بات سمجھادے جو تجھے پسند ہے، اپنے طور پر فیصلہ نہ کیجیے، اَبھی تو تعلیم شروع ہورہی ہے، آپ خود مجتہد نہ بن جائیے کہ بس یہ راستہ صحیح ہے یہ مسلک صحیح ہے یوں ہے اور ایسا ہے، یہ بھی ایک بہت بڑا فتنہ ہے۔ اِس دَور کا ایک بہت بڑا فتنہ ہے کہ کچے پن میں لوگ چاہتے ہیں کہ ہم مجتہد بن جائیں ،بالغ نظری دِکھاتے ہیں اور اپنی رائے پر اَڑتے ہیں اور دُوسرے کی رائے سے لڑتے ہیں یہ طالب علمانہ اَنداز نہیں ہے۔ طالب علم کو تو چاہیے بس وہ طلب میں رہے اُس کو ملتا رہے جمع کرتا رہے سوچتا رہے غور و فکر میں لگا رہے اور جو تجربہ کار ہیں پُرانے ماہر اَساتذہ ہیں اُن سے اپنے اَفکار، آرائ، خیالات کی تصویب یا تغلیط کرائے کیا صحیح ہے کیا صحیح نہیں ہے؟ سمجھنے کی کوشش کرے۔ اور موجودہ حالات میں مدارس کی اور طلباء کی ذمّہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں، آج دین کا اگر صحیح فہم نہیں ہوگا ناقص فہم ہوگا تو دین کو ہی نقصان پہنچے گا۔ حدیث ِ پاک میں فرمایا گیا