ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2008 |
اكستان |
پڑھ رہے ہو اللہ کی کتاب پڑھارہے ہو تو اللہ والے کیوں نہیں بن رہے ہو؟ یہ عجیب تماشا ہے پڑھاتے ہو اللہ کی کتاب اور پڑھتے ہو اللہ کی کتاب اور بنتے ہو دُنیادار۔ یہ تو ضد ہے اِس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی کتاب نہیں پڑھی جارہی، دیکھنے میں اللہ کی کتاب کے حروف ہیں لیکن حقیقت کچھ اَور ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا تھا اِسی لفظ کی تشریح کرتے ہوئے وَلٰکِنْ کُوْنُوْا رَبَّانِیِّیْنَ، فرمایا کُوْنُوْا فُقَہَآئَ عُلَمَآئَ حُکَمَآئَ اِس کا مطلب یہ ہے کہ دین کی سوجھ بوجھ پیدا کرو علم حاصل کرو دانشور بنو حکمت حاصل کرو ،وہ حکمت جو انبیاء کو اللہ تعالیٰ نے عطاء فرمائی ہر نبی کا ذکر ہے قرآن میں کہ ہم نے اُس کو علم دیا ہم نے اُس کو حکمت دی۔ تو ربانی کا مطلب صرف یہی نہیں ہے کہ آدمی تسبیح کے دانے گِننے لگے کسی خانقاہ میں بیٹھ جائے کسی پیر سے بس مُرید ہوجائے اِس کو ربانیت نہیں کہتے۔ ربانیت دل کا ایک خاص تعلق ہے جو اللہ سے حاصل ہوتا ہے علم ِ صحیح کی بنیاد پر۔ معرفت صحیح ہو عمل صحیح ہو عقیدۂ صحیحہ ہو معاملات ِ صحیحہ ہوں تب جاکر وہ وجود میں آتی ہے اور دین کا جہاں تک تعلق ہے جس کو آپ سیکھنے کے لیے آئے ہیں وہ کسی فقہ کی کتاب یا کسی حدیث کی کتاب یا کسی تفسیر کی کتاب کا ہی صرف نام نہیں ہے بلکہ دین کی تشریح بھی حضرت محمد ۖ نے فرمادی جس وقت جبرئیل ِ امین اجنبی کی شکل میں حاضر ہوئے تھے اور حضور ۖ سے سوالات کیے تھے یَامُحَمَّدُ مَاالْاِیْمَانُ یَامُحَمَّدُ مَاالْاِسْلَامُ یَامُحَمَّدُ مَاالْاِحْسَانُ؟ تو آپ نے تینوں کے جوابات دیے تھے۔ ایمان کا تعارف فرمایا اِسلام کا تعارف فرمایا احسان کا تعارف فرمایا۔ ایمان کے تعارف کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کا صحیح معنٰی میں جو علم ِ کلام ہے اُس کا ذکر ہوگیا اور اسلام کے ذریعے شریعت ِ حقہ شریعت ِ اسلامی کا تذکرہ ہوگیا اور احسان کے ذریعے تصوف کا اور کیفیات ِ باطنی کا ذکر فرما دیا گیا اور پھر جب وہ اُٹھ کر گئے تو حضور ۖ نے فرمایا ذٰلِکُمْ جِبْرَئِیْلُ اَتٰکُمْ یُعَلِّمُکُمْ دِیْنَکُمْ یعنی اِن تینوں کے مجموعے کا نام'' دین ''ہوتا ہے۔ آدمی ایمانیات کا بھی ماہر ہو اِسلامیات کا بھی ماہر ہو احسانیات کا بھی ماہر ہو تب وہ دین کا جاننے والا ہے۔ اگر احسانیات کو جانتا ہے اسلامیات کو نہیں جانتا ہے تو اُس کے پاس ایک تہائی دین ہے اور اِسلامیات کو جانتا ہے اور ایمانیات کو نہیں جانتا تو بھی ایک تہائی دین ہے اور ایمانیات سے واقف ہے لیکن اِسلامیات سے نہیں ہے تو بھی اُس کے پاس ایک تہائی دین ہے۔ تینوں تہائیاں اُس وقت مکمل ہوں گی جب