ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2008 |
اكستان |
|
ساتھ ہورہی ہے اور اِس کیفیت کے ساتھ نہیں ہے بس یہ کہ میں نماز کا اِرادہ کررہا ہوں، اِس نماز پڑھنے میں اللہ سے ثواب کی اُمید ہے نہ اُس بارے میں کوئی اِحساس ہے اور نہ یہ کہ یہ نماز مجھے پاک کرے گی اور اِس نماز کے یہ فوائد ہیں کچھ بھی احساس نہیں ،یہ ایک مشینی عمل ہے ایک مشینی عمل کیا جارہا ہے اگر ایک مشینی عمل ہے تو وہ نماز نہیں، کیونکہ نماز کے بھی اپنے اَوصاف ہیں ہر چیز کی کچھ خاصیتیں ہوتی ہیں ہر چیز کے کچھ اَجزاء ہوتے ہیں ہر چیز جو ہیئت ِ ترکیبی رکھتی ہے اپنے مختلف عناصر سے اِس ہیئت کی تکمیل کرتی ہے تو نماز کی ایک ہیئت ِ ترکیبی ہے نماز کے کچھ ظواہر ہیں نماز کے کچھ بواطن ہیں دونوں کی تکمیل سے نماز وجود میں آتی ہے، کبھی نماز ایک دھڑ ہوتی ہے اور کبھی نماز صرف رُوح ہوتی ہے اور کبھی نماز دونوں کا مجموعہ ہوتی ہے تو فرمایا گیا قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَo اَلَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلٰوتِھِمْ خَاشِعُوْنَo ''صلوٰة'' یہاں پر اُس کی ہیکل ِ ظاہری کے لیے بولا گیا اور ''خاشعون'' اُس کی ہیکل ِ باطنی کے لیے بولاگیا اور جب نماز خشوع کے ساتھ ہوتی ہے یعنی اَلصَّلٰوةُ ظَاھِرًا بِالْقِیَامِ وَالرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ وَالْقُعُوْدِ وَالتِّلَاوَةِ وَغَیْرُذٰلِکَ یہ اُس کے اَرکان ہیں اِن اَرکان کے ساتھ صلوٰة وجود میں آئی اور پھر خشوع یعنی کیفیت ِ باطنی بھی ایمان اور احتساب کی ہے جب یہ دونوں باتیں جمع ہوتی ہیں تو پھر وہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ پھر نماز بُرائی سے بے حیائی سے ہر بُری بات سے روک دیتی ہے یعنی انسان کو پھر تقوٰی حاصل ہوتا ہے اِنسان کا باطن طاہر ہوتاہے انسان مُزکّٰی بن جاتا ہے انسان ربانی بن جاتا ہے یہ اُس کا فائدہ ہوتا ہے۔ اِسی طرح علم ِ نبوی کا جو فائدہ ہے وہ یہ ہے کہ اُس سے ربانیت حاصل ہوتی ہے تعلق مع اللہ نصیب ہوتا ہے تعلق مع الملأ الاعلیٰ نصیب ہوتا ہے تعلق مع الانبیاء نصیب ہوتا ہے عالم ِ بالا سے عالم ِ غیب سے اُس کے ذریعے سے تعلق ہوتا ہے یہ دُنیا آخرت سے جڑجاتی ہے عادت عبادت کے ساتھ مربوط ہوجاتی ہے دُنیا کے تمام ضابطے شریعت کے تحت آجاتے ہیں یہ سارے نتائج نکلتے ہیں جب واقعتًا علم ِ نبوی ہو ۔فرمایا گیا وَلٰکِنْ کُوْنُوْا رَبَّانِیِّیْنَ بِمَاکُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْکِتَابَ وَبِمَاکُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ۔ تُعَلِّمُوْنَ عمل ہوگیا اُستادوں کا مدرسین کا اور تَدْرُسُوْنَ عمل ہوگیا طلباء کا۔ فرمایا کہ تم پڑھتے ہو اور تم پڑھاتے ہو اِس لیے تمہیں ربانی بننا چاہیے وَلٰکِنْ کُوْنُوْا رَبَّانِیِّیْنَ تمہیں ربانی بننا چاہیے، کیوں؟ اِس لیے بِمَاکُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْکِتَابَ تم اللہ کی کتاب پڑھاتے ہو وَبِمَاکُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ اور تم اللہ کی کتاب پڑھتے ہو ۔تو جب اللہ کی کتاب