ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2008 |
اكستان |
|
کام دینا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اُسے یہ دین عطاء فرمایا اور یہ حکم فرمایا کہ اِس دین کو تقسیم کیا جائے لوگوں تک پہنچایا جائے اِس کو منتقل کیا جائے یٰاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسٰلَتَہ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ اے پیغمبر! لوگوں تک وہ بات پہنچادیجیے جو آپ کی طرف اُتاری جارہی ہے اور اگر آپ اِس کو نہیں پہنچائیں گے تو پھر اللہ کا پیغام اَدا نہیں کریں گے اور لوگوں سے اللہ آپ کی حفاظت کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے دین کی تبلیغ اور دین کی نصرت کے ساتھ اپنی نصرت کو مربوط فرمادیا، جو بات اِس آیت ِ کریمہ میں فرمائی گئی کہ بات آپ پہنچائیں گے دین لوگوں تک منتقل کریں گے تو وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ یہاں عصمت وہ نہیں ہے کہ جو عِصْمَتْ مِنَ الذُّنُوْبِ ہے ۔ نبی ۖ معصوم ہیں یعنی مَعْصُوْم عَنِ الذُّنُوْبِ وَ مَعْصُوْم عَنِ الْمَعَاصِیْ وَ مَعْصُوْم عَنْ کُلِّ سَیِّئَةٍ ایک عصمت وہ ہے لیکن یہاں اُس عصمت کا تذکرہ نہیں فرمایا جارہا ہے یہاں لوگوں سے حفاظت کا ذکر فرمایا جارہا ہے وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ فرمایا جارہا ہے مِنَ الذُّنُوْبِ وَالْخَطَایَا نہیں فرمایا جارہا۔ لہٰذا اِس آیت ِ کریمہ میں جو بات اِرشاد فرمائی گئی وہ ایسے ہی ہے جیسے فرمایا اِنْ تَنْصُرُوْا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ تم اللہ کے دین کی نصرت کروگے خدا تمہاری نصرت کرے گا اور تمہارے قدم جمادے گا۔ تو معلوم یہ ہوا کہ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں خدا تعالیٰ کی نصرت کا لازمہ یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے نصرت نصیب ہو اور جہاں بھی اللہ کے دین کی نصرت سے محرومی ہوگی وہاں اللہ کی نصرت سے محرومی ہوجائے گی۔ حضور ۖ نے اَنصار کی محبت کو ایمان کی علامت قراردیا ہے فرمایا کہ آیَةُ الْاِیْمَانِ حُبُّ الْاَنْصَارِ وَآیَةُ النِّفَاقِ بُغْضُ الْاَنْصَارِ اَنصار کی محبت ایمان کی علامت ہے تو اَنصار کی محبت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قبیلۂ اَوس سے یا قبیلۂ خزرج سے یا قبیلۂ بنو عوف سے یا قبیلۂ بنو سالم سے محبت ہو۔ یہ محبت قبائلی نہیں ہے یہ خاندانی نہیںہے یہ خونی نہیںہے یہ جسمانی رِشتوں کی محبت نہیں ہے بلکہ اِس محبت کی علّت نصرت ہے۔یہاں حکم کا جو ترتب کیا گیا ہے وہ نصرت پر کیا گیا ہے اور قاعدہ ہے کہ اِنَّ تَرَتُّبَ الْحُکْمِ عَلٰی وَصْفٍ یُّشْعِرُ بِعِلِّیَّتِہ لَہ معلوم یہ ہوا کہ اِیمان کی علامت قرار دیا گیا اُن کی محبت کو جو اُس کی علت ہے نصرتِ دین ،اور نصرتِ دین نے اُن کو یہ منصب و مقام عطاء فرمایا کہ جو شخص بھی اِس علت کا حامل ہوگا اُس کا حکم بھی یہی ہوگا یعنی جو بھی نَاصِرُ الدِّیْنِ لِلّٰہِ ہوگا اُس کی محبت ایمان کی علامت بن جائے گی اور اَنصار کا