ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2008 |
اكستان |
|
کے ساتھ اپنے کاموں میں لگے رہنے کی تلقین فرماتے رہے، الحمدللہ اِس کے اچھے ثمرات مرتب ہوئے اور آج ایسے کتنے مدارس ہیں جہاں تعلیم و تعلُّم کے ساتھ مجالس ِذکر بھی قائم ہیںجن کی برکت سے وہاں تعلیم ِ دین کے فوائد کُھلے طور پر نظر آرہے ہیں۔ حضرت شیخ رحمہ اللہ کی اِس سلسلہ میں جگر سوزی و فکر مندی کی ایک اہم کڑی آپ کی وہ مکاتبت ہے جو آپ کے اور حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب اورحضرت مولانا محمد یوسف صاحب بنوری رحمہم اللہ کے مابین ہوئی حضرت شیخ رحمہ اللہ نے اِن حضرات کی توجہ مدارس میں مجالس ِ ذکر کے قیام کی جانب مبذول کرائی اور اِن حضرات نہ صرف اِس تجویز کی موافقت کی بلکہ اِس کو عملی جامہ بھی پہنایا اوراپنے اپنے مدارس میں باقاعدہ اِن مجالس کاانتظام فرمایا۔ اِس وقت مدارس کی عمومی صورت ِ حال پھر اِس کی متقاضی ہے کہ حضرت شیخ رحمہ اللہ کی مذکورہ بالا تجویز پر پورے اہتمام سے عمل کیا جائے، اِسی مقصد سے یہ سلسلہ مکاتبت شائع کیا جارہا ہے اور حضرات ِ علمائے کرام اور ذمّہ دارانِ مدارسِ اسلامیہ کی خدمت میں مخلصانہ گزارش کی جارہی ہے کہ خدارا وہ اِس تحریک کا مطالعہ بغور فرمائیں پھر اِس کے مطابق عملی قدم اُٹھانے پر سنجیدگی سے غور فرمائیں۔ اِس سلسلۂ مکاتبت میں اِس اشکال کا تشفی بخش حل بھی موجود ہے جو عام طورسے علماء کرام کوپیش آتا رہتا ہے کہ مدارس میں تو قرآنِ کریم کی مختلف اَنداز سے تعلیم ہوتی ہے، اَحادیث طیبہ پڑھی پڑھائی جاتی ہیں، اُن کی فضائیں شب وروز اللہ تعالیٰ کے پاک نام سے گونجتی رہتی ہیں تو پھر الگ سے باقاعدہ خانقاہی نظام کے تحت مجالس ِذکر کے انعقاد کی کیا ضرورت ؟ بلکہ بعض حضرات کو یہ کام مقصد ِقیامِ مدارس کے منافی معلوم ہوتا ہے۔ہمارے دل کی یہ ایک آواز ہے جواِس اُمید پرلگائی جارہی ہے کہ شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات خدا کرے ہماری یہ آواز صدا بصحراء ثابت نہ ہو اور ہم سب کو اللہ تعالیٰ ملت ِاسلامیہ کے بچے کُھچے سرمایہ کی حفاظت کے لیے کسی نہ کسی درجہ میںاستعمال فرمالیں تواُن کاہم پر بڑا فضل اورکرم ہوگا۔ بندہ محمد طلحہ کاندھلوی٧ شوال المکرم سنہ ١٤٢٨ھ