ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2007 |
اكستان |
|
ماہ ربیع الاول اور مسلمانوں کا طرزِ عمل ( حضرت مولانا محمد منظور نعمانی رحمة اللہ علیہ ) اب سے تقریباً چودہ سو برس پہلے جبکہ کائنات انسانی بحرِ ظلمات میں غرق تھی اور رُوحانیت شیطنت سے مغلوب ہو رہی تھی، خلّاقِ عالم نے اپنے آخری نبی اورمحبوب ترین رسول حضرت محمد ۖ فداہ رُوحی وقلبی کو اِس دُنیا میں بھیجا تاکہ آپ نورِ ہدایت سے ظلماتِ ضلالت کو شکست دیں اور حق کو باطل پر غالب کردیں۔ ہمارے ماں باپ آپ پر نثار ہوں آپ ۖ تشریف لائے اور آتے ہی باذن اللہ دُنیا کا رُخ پلٹ دیا، بندوں کا ٹوٹا ہوا رشتہ خدا سے جوڑا،اور جو کم نصیب قعرِ مذلت میں گر چکے تھے اُن کو وہاں سے اُٹھا کر اَوجِ رِفعت پر پہنچایا۔ مشرکوں کو موحد بنایا اور کافروں کو مومن ، بت پرستوں کو خدا پرست کیا اور بت سازوں کو بت شکن ،رہزنوں کو رہنمائی سکھائی اور غلاموں کو آقائی ،چور چوکیدار بن گئے اور ظالم غم خوار ،اور جودُنیا بھر کے آوارہ تھے وہی سب سے زیادہ متمدن ہوگئے اور جن کا قومی شیرازہ بالکل منتشر ہوچکا تھا وہ کامل طور پر منظم کردئیے گئے ۔رُوحانیت کے فرشتے شیطنت پر غالب آگئے ۔کفر وشرک ،بدعت وضلالت اور ہر قسم کی گمراہیوں کو زبردست شکست ہوئی ۔شقاوت وبدبختی کا موسم بدل گیا ،ظلم وعدوان اور فساد وطغیان کا زور ختم ہوگیا، صداقت اور خیر وسعادت نے عالمگیر فتح پائی اور زمین پر اَمن وعدالت کی ایک بادشاہت قائم ہوگئی ۔ جس وقت عالمِ انسانی کے اِس منجی ٔاعظم (ۖ) نے اِس عالمِ آب وگل میں اپنا پہلا قدم رکھا تھا وہ ربیع الاول ہی کا مہینہ تھا اور پھر جب آپ ۖ کا سن شریف چالیس برس کا ہوا تو اُسی مہینہ میں اصلاح ِعالم کا کام آپ کے سپرد ہوا۔ پس اِس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ ربیع الاول ہی اِس رحمت ِعامہ کے ظہور کا مبداء اور رُوحانی خیرات وبرکات کے وفور کامنبع ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب یہ ماہِ مبارک آتا ہے تو مسلمانوں کے قلوب میں (حتی کہ اُن دلوں میں بھی جو دُوسرے موسموں میں بالکل غافل رہتے ہیں )اِس وجود ِمقدس کی یاد تازہ ہوجاتی ہے اور طرح طرح سے خوشیوں اور مسرتوں کا اظہار کیا جاتا ہے ۔نعمائے الٰہی کی یاد سے خوش ہونا بُری چیز نہیں بلکہ حدودِ شرعیہ سے تجاوز نہ ہو تو ایک درجہ میں محمود ہے لیکن آج مجھے عرض کرنا یہ ہے کہ :