ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2007 |
اكستان |
|
تو اہل کوفہ بگڑگئے کہ ہم سعید بن العاص کو اندر نہ آنے دیں گے۔ انہوں نے مسلح ہوکر قسمیں کھائیں کہ ہم سعید کو اُس وقت تک کوفہ میں داخل نہ ہونے دیں گے جب تک کہ حضرت عثمان انہیں معزول کرکے حضرت ابوموسیٰ اشعری کو امیر کوفہ نہ بنائیں۔ اُن کا یہ مسلح اجتماع جرعہ مقام پر ہوا تھا جو قادسیہ کے قریب ہے۔ یہ لوگ تیار ہوکر وہیں ٹھہرے رہے۔ اشتر نخعی نے قسم کھائی کہ خدا کی قسم وہ ہمارے پاس اُس وقت تک نہیں آسکتے جب تک ہم میں تلوار اُٹھانے کی جان ہے۔ سعید اِن سے جنگ کرنے سے رُکے رہے۔ اور انہوں نے انہیں روک دینے کا پختہ عزم قائم رکھا۔ اُس روز مسجد کوفہ میں حضرت حذیفہ اور حضرت ابومسعود عقبة بن عمرو جمع ہوئے۔ حضرت ابومسعود فرمانے لگے وَاللّٰہِ سَعِیدُ بْنُ الْعَاصِ اُس وقت تک واپس نہ ہوں گے جب تک خون نہ بہہ جائیں۔ تو حضرت حذیفہ فرمانے لگے واللہ وہ ضرور واپس چلے جائیں گے اور چلّو بھر بھی خونریزی نہ ہوگی۔ اور میں جو کچھ آج جان رہا ہوں وہ سب کچھ اُس وقت جان چکا تھا کہ جب جناب رسول اللہ ۖ حیات تھے۔ (حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ صاحب سر رسول اللہ ۖ کہلاتے تھے اور آنے والے زمانے میں فتنوں کے بارے میں دریافت کرتے رہتے تھے۔ اسی لیے شروع میں جو حدیث گزری ہے اُس میں اِن ہی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جواب دیا تھا)۔ غرض ہوا بھی یہی کہ سعید بن العاص مدینہ شریف واپس چلے گئے۔ یہ بات اہل کوفہ کو پسند آئی۔ انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں درخواست کی آپ نے منظور فرمالی تاکہ اُن کے عذر اُن کی دلیلوں اور شبہات کا ازالہ ہوجائے۔ (البدایہ ج٧ ص ١٦٧) حضرت حذیفہ کوفہ میں رہنے لگے تھے۔ اِنہیں حضرت عمر نے مدائن کا عامل مقرر فرمایا تھا۔ اِن کی فتوحات اُسی دَور میں ذکر کی گئی ہیں ٢٢ ھ میں ماسبذان، ھمدان اور ری (موجودہ تہران) وغیرہ۔ وہ فرماتے تھے : لَقَدْ حَدَّثَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَاکَانَ وَمَایَکُوْنُ حَتّٰی تَقُوْمَ السَّاعَةُ ۔ مجھے جناب رسول اللہ ۖ نے مَاکَانَ اور قیامت تک مَایَکُوْنُ بتلادیا تھا۔ حضرت عثمان کی شہادت سے چالیس دن بعد وفات پائی۔ رضی اللہ عنہ (تہذیب التہذیب ج٢ ص ٢٢٠) ۔