ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2007 |
اكستان |
|
درحقیقت اِن لوگوں نے خاندانی عصبیت کو بھی اُبھارنا اور استعمال کرنا چاہا۔ اِس چیز کو حضرت عثمان نے محسوس فرماکر پریشانی میں تمام سپہ سالاروں کو جو گورنرز بھی تھے طلب فرمایا تاکہ مشورہ کریں۔ حضرات معاویہ امیر شام، عمرو بن العاص امیر مصر ،عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح امیرمغرب (لیبیا، مراکش، الجزائر)، سعید بن العاص امیر کوفہ ،عبد اللہ عامر امیر بصرہ، سب آگئے۔ آپ پہلے پڑھ چکے ہیں کہ یہ سب حضرات اپنی اپنی جگہ محاذوں کے انچارج بھی تھے۔ مشورہ میں عبد اللہ بن عامر نے عرض کیا کہ ان معترضین کی جماعت کو جہاد کے لیے بھیج دیا جائے (کیونکہ یہ بھی سب مجاہدین تھے) تو اِس شر اُٹھانے سے یہ باز آجائیں گے اور میدانِ جہاد میں انسان کو اپنی پڑی ہوتی ہے، اپنے کپڑے ہتھیار اور جانور (سواری) کے کام میں لگا رہتا ہے۔ سعید بن العاص رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ اِن مفسدین کی جڑ ہی ماردی جائے۔ سزا دے کر ختم کردیا جائے۔ حضرت معاویہ نے مشورہ دیا کہ تمام عُمَّال (حکام) کو اپنی اپنی جگہ بھیج دیا جائے اور اِن لوگوں کی طرف توجہ بھی نہ دی جائے (خاطر میں نہ لائیں) کیونکہ وہ تعداد میں بہت تھوڑے ہیں۔ اِن کی عسکری (لڑسکنے کی) قوت کمزور تر ہے۔ حضرت عبد اللہ بن سعد نے مشورہ دیا کہ اِن کی تالیف قلب کی جائے، اِس طرح کہ اِنہیں اتنا مال دیا جائے کہ اِن کے ذہن سے شر و فساد نکل جائے اور اِن کے دل جناب کی طرف مائل ہوجائیں۔ حضرت عمرو بن العاص کھڑے ہوگئے، انہوں نے کہا اَمَّابَعَدْ ! اے عثمان آپ نے لوگوں پر ایسی چیز مسلط کررکھی ہے جو انہیں پسند نہیں ہے۔ یا تو اِن کی ناپسند چیز کو ہٹادیں اور یا خود جاکر اپنے حکام کو وہاں جمائیں۔ انہوں نے اُس وقت سخت باتیں کیں پھر تنہائی میں معذرت چاہی اور کہا کہ میں نے یہ باتیں اس لیے کہی ہیں کہ یہ گورنر اپنی اپنی جگہ جاکر یہاں کی گفتگو نقل کریں گے۔ اُس وقت میری گفتگو بھی لوگوں تک پہنچے گی اِس سے لوگ آپ سے خوش ہوں گے۔ اُن کی اِس گفتگو کے بعد حضرت عثمان نے اپنے حکام کو اپنی اپنی جگہ رہنے دیا اور اُن مخالفین کے لیے عطیات مالیہ کا حکم دیا اور یہ بھی حکم دیا کہ اِن لوگوں کو مورچوں پر بھیج دیا جائے۔ اس طرح آپ نے اِن کے مشوروں پر عمل اختیار فرمایا۔ لیکن فتنہ کا اِنسداد ہوتے ہوتے ایک نیا فتنہ کھڑا ہوگیا ،ہوا یہ کہ جب یہ حکام اپنی اپنی جگہ پہنچے