ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2007 |
اكستان |
نکل جانے کا اندیشہ ہو۔ یہ (اثر) اُن کی روایت عمرو بن ابی سلمة نے اوزاعی سے نقل کی ہے کہ شرحبیل بن السمط نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ صبح کی نماز ضرور اپنی اپنی سواریوں پر ہی پڑھنا۔ اشتر اُترے، اُنہوں نے زمین پر پڑھی۔ شرحبیل نے اُن کے اِس فعل کو بُرا جانا۔ دُشمن کے پیچھے اگر مسلمان جارہے ہوں تو اوزاعی فرماتے تھے کہ ایسے ہی کرنا چاہیے کہ اُتر کر نماز پڑھے۔ یہی امام اعظم اور امام شافعی رحمہما اللہ کا مسلک ہے۔ شرحبیل بن السمط کا صحابی ہونے نہ ہونے میں اختلاف ہے۔ (تہذیب التہذیب ج٤ ص ٣٢٢) اِنہوں نے شام میں حِمص فتح کیا تھا اور قادسیہ میں بھی شرکت کی تھی ۔ (ایضًا تہذیب) ٭ ثَابِتُ بْنُ قَیْسِ بْنِ مُنَقَّعِ النَّخْعِیُّ اَبُوالْمُنَقَّعِ الْکُوْفِیُّ رَوٰی عَنْ اَبِیْ مُوْسَی الْاَشْعَرِیِّ فِی الْاِ بْرَادِ بِالظُّھْرِ وَعَنْہُ یَزِیْدُ بْنُ اَوْسٍ وَاَبُوْزُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِیْرٍ رَوٰی لَہُ النَّسَائِیُّ حَدِیْثًا وَّاحِدًا۔ قُلْتُ ذَکَرَہُ ابْنُ حِِبَّانَ فِی الثِّقَاتِ وَقَالَ رَوٰی عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ۔( تہذیب التہذیب ج٢ ص١٣) حضرت ابوموسیٰ اشعری سے ظہر کو ٹھنڈے وقت ادا کرنے کی روایت کرتے ہیں۔ ان سے یزید بن اَوس اور ابوزُرعہ نے روایات لی ہیں۔ امام نسائی نے اِن کی ایک حدیث لی ہے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ ابن ِحبان نے اِن کا ذکر ثقات میں کیا ہے اور کہا ہے کہ انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود سے بھی روایت لی ہے۔ یہ لوگ دمشق اور شام سے نکلے تو الجزیرہ (حران اور رقہ) میں داخل ہوگئے۔ وہاں عبدالرحمن بن خالد بن الولید سے ملنا ہوگیا وہ اُن دِنوں الجزیرہ نامی حصہ میں نائب امیر تھے۔ انہوں نے انہیں ڈرایا دھمکایا۔ تو ان لوگوں نے معذرت کی اور اِس رَوش کو ترک کرنے اور رجوع کرلینے کا فیصلہ کرلیا۔ عبد الرحمن بن خالد نے ان کے لیے دُعاء کی اور مالک الاشتر کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیج دیا تاکہ وہ اپنی اور اپنے ساتھیوں کی طرف سے معذرت پیش کریں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کی معذرت قبول