ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2007 |
اكستان |
|
بن عمیر منھال بن عمر ووغیرہ ہم ہیں۔ ابن ِسعد کہتے ہیں ثقہ تھے۔ حدیثیں کم بیان کرتے تھے۔ حضرت معاویہ کے دَور خلافت میں کوفہ میں وفات پائی۔ ابن عبد البر نے ان کا نام صحابہ میں ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ جناب رسول اللہ ۖ کے زمانہ میں مسلمان ہوچکے تھے لیکن زیارت سے مشرف نہیں ہوئے۔ سردار تھے، فصیح اللسان تھے، خطیب تھے اور دیندار تھے۔ شعبی فرماتے ہیں میں اِن سے خطبے سیکھا کرتا تھا اور عبد اللہ بن بُریدہ کی روایت صعصعة سے سنن ابی داود میں موجود ہے کتاب الادب باب قول الشعر میں۔ (تہذیب التہذیب ج٤ ص ٤٢٢) ٭ مَالِکُ بْنُ الْاَشْتَرِ النَّخْعِیُّ۔ نَخَعْ قبیلہ سے تھا جو یمن کے قبائل مذحج میں سے ایک ہے۔ محب الدین لکھتے ہیں : بَطَل شُجَاع مِنْ اَبْطَالِ الْعَرَبِ عرب کے زور آور بہادروں میں سے پہلوان شخص تھا۔ اُس نے سب سے پہلے جس معرکہ میں شرکت کی وہ معرکۂ یرموک تھا۔ اِسی میں اُس کی ایک آنکھ کام آئی۔ اور اگر وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا نظام خلافت برہم کرنے والوں میں نہ ہوتا اور اُس کی لڑائیاں دعوت اسلام پھیلانے اور فتوحات کے لیے رہتیں تو لَکَانَ لَہ فِی التَّارِیْخِ شَأْن آخَرُ تو تاریخ میں اُس کی اور ہی شان ہوتی۔ (محب الدین علی العواصم من القواصم ص ١١٧) حافظ ابن حجر لکھتے ہیں : مَالِکُ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ یَغُوْثَ بْنِ مَسْلَمَةَ بْنِ رَبِیْعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ جَذِیْمَةَ بْنِ مَالِکِ بْنِ النَّخْعِِ النَّخْعِیُّ الْکُوْفِیُّ الْمَعْرُوْفُ بِالْاَشْتَرِ ۔ اِنہوں نے زمانۂ جاہلیت بھی پایا ہے۔ حضرات عمر، علی، خالد بن الولید، ابوذر اور اُم ذرّ رضی اللہ عنہم سے روایات لی ہیں۔ اِن سے اُن کے بیٹے ابراہیم، ابوحسان الاعرج، کنانة مولی صفیہ، عبد الرحمن بن یزید، علقمة بن قیس اور مخرمة بن ربیعہ نخعی حضرات اور عمرو بن غالب الہمدانی نے روایات لی ہیں۔ ابن ِسعد نے اِن کو تابعین ِکوفہ کے طبقۂ اوّل میں ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حضرت علی کے ساتھی تھے۔ جمل صفین اور اُن کے تمام معرکوں میں شریک رہے۔ حضرت علی نے اِن کو مصر کا والی مقرر کیا۔ جب یہ قلزم پہنچے تو وہاں شہد کا گھونٹ پیا اور انتقال کرگئے۔