ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2007 |
اكستان |
ہوگئی۔ موصل کے حاکم نے اِن کا سر کاٹ کر زیاد کے پاس بھیجا۔ زیاد نے اِسے حضرت معاویہ کے پاس بھیج دیا۔ (تہذیب التہذیب ج٨ ص ٢٤) ۔ اِن کے متعلق مزید حالات جابجا آئیں گے۔ ٭ کُمَیْل : کُمَیْلُ بْنُ زِیَادِ بْنِ نَھِیْکِ بْنِ الْھَیْثَمِ بْنِ سَعْدِ بْنِ مَالِکِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ صَھْبَانَ بْنِ مَالِکِ بْنِ النَّخْعِ انہوں نے حضرات عمر، علی، عثمان، ابن مسعود، ابومسعود اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے روایت لی ہیں اور اُن سے ابواسحاق سبیعی، عباس بن ذُریح، عبد اللہ بن یزید الصھبانی، عبد الرحمن بن عابس اور اعمش وغیرہم نے روایت لی ہے۔ ابن ِسعد کہتے ہیں حضرت علی کے ساتھ صفین میں شریک ہوئے۔ صاحب شرف تھے۔ اپنی قوم کے مطاع تھے (قوم اُن کی اطاعت کرتی تھی) یہ ثقہ تھے۔ حدیث کم روایت کرتے تھے۔ حجاج نے اِنہیں قتل کردیا وَکَانَ شَرِیْفًا مُّطَاعًا فِیْ قَوْمِہ قَتَلَہُ الْحَجَّاجُ وَکَانَ ثِقَةً قَلِیْلَ الْحَدِیْثِ ۔ یحییٰ بن معین نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے۔ عجلی کہتے ہیں یہ کوفی ہیں، تابعی ہیں، ثقہ ہیں۔ ابن حبان نے انہیں ثقات میں اور مدائنی نے کوفہ کے عبادت گزار لوگوں میں اِن کا شمار کیا ہے وَقَالَ ابْنُ حِبَّانَ فِی الضُّعَفَآئِ لَایُحْتَجُّ بِہ۔ البتہ قابل احتجاج نہیں ہیں۔ خلیفہ نے کہا ہے کہ انہیں حجاج نے ٨٢ ھ میں قتل کردیا۔ یحییٰ بن معین فرماتے ہیں کہ ٨٨ ھ میں اِن کا انتقال ہوا ہے۔ اُس وقت اِن کی عمر ستر سال تھی۔ ابن عمار نے انہیں رافضی کہا ہے اور کہا ہے کہ وہ ثقہ شخص ہیں۔ حضرت علی کا ساتھ دینے والوں میں ہیں۔ (تہذیب التہذیب ج٨ ص ٤٤٨) ٭ صَعْصَعَہْ : صَعْصَعَةُ بْنُ صَوْحَانَ الْعَبْدِیُّ اَبُوْعُمَرَ وَیُقَالُ اَبُوْطَلْحَةَ صُعْصُعَہْ پیش کے ساتھ بھی نام ذکر کیا گیا ہے۔ کوفہ کے رہنے والے ہیں۔ حضرات عثمان، علی اور ابن عباس (رضی اللہ عنہم) سے روایات لی ہیں۔ حضرت علی کے ساتھ صفین میں ایک حصہ کے کمانڈر رہے۔ اِن سے روایات لینے والے ابواسحاق السبیعی، ابن بریدہ، شعبی (اُستاذ امام اعظم ابوحنیفہ) مالک