ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2006 |
اكستان |
|
تقابل کرنا انتہائی حماقت ہے۔ ناظرین گرامی! مولانا جونا گڑھی کی ایک اور ''جونا گڑھی'' ملاحظہ فرمائیں، فرماتے ہیں : ''مسلمانوں کو قرآن و حدیث کی اتباع کی جس دھوم دھام سے نصیحت کی گئی ہے اُتنے ہی زوروں سے اِس کے سوا کسی تیسری چیز کی تابعداری کو حرام بتلایا ہے۔ افسوس کہ آج چودھویں صدی کے مسلمان نہ تو اِس تاکیدی فرض کی طرف متوجہ ہیں نہ اِس ابدی حرام سے مجتنب ہیں۔ یہ مسلمان کہلواکر کہیں ابوحنیفہ کی تقلید کو فرض و واجب بتلاتے ہیں، کہیں شافعی اور احمد اور مالک کے پیچھے اندھے بن کر لگ جانے کو شرعی اَمر سمجھتے ہیں۔''(طریق محمدی صفحہ ١٤٦) حضرات گرامی! اِسے کہتے ہیں چوری اور سینہ زوری۔ ائمہ اربعہ اور جمہور اُمت ِمسلمہ کے نزدیک شریعت میں چار چیزیں حجت ہیں لیکن جونا گڑھی صاحب صرف قرآن و حدیث کا ذکر کررہے ہیں۔ قرآن پاک نے کئی جگہ اللہ اور رسول کی اطاعت کے بعد اُولُوا الْاَمْر کی اطاعت کا حکم دیا ہے نیز نیک اور سچے لوگوں کی پیروی کا حکم دیا ہے۔ حضرت معاذ کو جب آپ نے یمن بھیجا تو آپ نے پوچھا اے معاذ! وہاں جاکر فیصلے کیسے کروگے؟ اُنہوں نے عرض کیا اللہ کی کتاب سے۔ فرمایا اگر مسئلہ کتاب اللہ میں نہ پایا جائے تو؟ عرض کیاآپ کی سنت سے۔ فرمایا اگر مسئلہ میری سنت میں بھی نہ ملے تو؟ عرض کیا کہ میں قرآن و سنت کے اُصولوں کی روشنی میں اجتہاد کروں گا اور اپنے اجتہاد کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ آپ نے اِس جواب پر اُن کی تحسین کی اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ اِن واضح دلائل کے باوجود مولانا کی نظر قرآن و حدیث سے آگے نہیں جاتی اور کسی تیسری چیز کی تابعداری کو حرام قرار دیتے ہیں حالانکہ اجماعِ اُمت دین کی تیسری حجت ہے۔ احادیث کی کتابوں میں اجماع کے حجت ہونے کی بے شمار روایات ہیں مثلاً فرمایا '' لَاتَجْتَمِعُ اُمَّتِیْ عَلَی الضَّلَالَةِ '' یعنی میری اُمت گمراہی پر اکٹھی نہیں ہوسکتی۔ ''یَدُ اللّٰہِ عَلَی الْجَمَاعَةِ '' جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے اور جماعت سے نکلنے والے کو اُس بھیڑیے سے تشبیہ دی ہے جو گلّے سے جدا ہوجائے، اس کا انجام درندوں کا شکار ہونا ہے۔ ایسے ہی یہ غیر مقلدین سواد ِاعظم کو چھوڑکر شیطان کے پھندے میں پھنس جاتے ہیں۔ شیطان کے بتلائے ہوئے دلائل