ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2006 |
اكستان |
فَرَاٰھُمْ فَانْطَلَقَ اِلٰی عَامِلِ مُّعٰوِیَةَ فَاَخْبَرَہ بِھِمْ قَالَ فَاَخَذَھُمْ مُعٰوِیَةُ فَضَرَبَ اَعْنَاقَھُمْ ۔ (المصنف لابن ابی شیبہ ص ٩٩٧ ج ٤ ) ''سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پاس ابوعمرو بن بدیل اور تجیبی پہنچے۔ ایک نے ان کے گلے کی رگوں پر بھالا مارا۔ اور دوسرا تلوار مارکر چڑھ گیا اور شہید کردیا پھر یہ بھاگ گئے۔ رات کو سفر کرتے اور دن میں چھپ جاتے حتی کہ یہ ایک شہر پہنچے جو مصر اور شام کے درمیان تھا۔ وہاں ایک غار میں چھپ گئے، ایک سرمدی گندم فروش آیا جواِن ہی شہروں میں سے کہیں کا رہنے والا تھا۔ اس کے ساتھ اس کا گدھا تھا، گدھے کی ناک میں کسی طرح مکھی چلی گئی، وہ بدک کر بھاگا حتی کہ اِسی غار میں جا کھڑا ہوا جہاں یہ تھے۔ اسے تلاش کرتے کرتے اُس کا مالک بھی وہاں پہنچا، اس نے ان لوگوں کو دیکھا تو آکر حضرت معاویہ کے عامل کو اطلاع کردی۔ اس نے ان لوگوں کو پکڑکر حضرت معاویہ کے پاس پہنچادیا، انہوں نے انہیں قتل کردیا۔ '' محمد بن ابی بکر کے بارے میں حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : وَالصَّحِیْحُ اَنَّ الَّذِیْ فَعَلَ ذٰلِکَ غَیْرُہ وَاَنَّہُ اسْتَحْیٰ وَرَجَعَ حِیْنَ قَالَ لَہ عُثْمَانُ لَقَدْ اَخَذْتَ بِلِحْیَةٍ کَانَ اَبُوْکَ یُکْرِمُھَا فَتَنَدَّمَ مِنْ ذٰلِکَ وَغَطّٰی وَجْہَہ وَرَجَعَ وَحَاجَزَ دُوْنَہ فَلَمْ یُفِدْ وَکَانَ اَمْرُ اللّٰہِ قَدَرًا مَّقْدُوْرًا وَکَانَ ذٰلِکَ فِی الْکِتَابِ مَسْطُوْرًا۔ ( البدایہ ص ١٨٥ ج ٧ ) ''اور صحیح بات یہ ہے کہ جس شخص نے یہ کام کیا وہ اور تھا اور محمد بن ابی بکر اُس وقت شرمار کر لوٹ گیا جس وقت اُس سے حضرت عثمان نے فرمایا کہ تونے وہ ڈاڑھی پکڑی ہے جس کا تیرے والد اِکرام کیا کرتے تھے، اس نے اسے برا کام سمجھا، اپنا منہ ڈھانپ کر لوٹا۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے اُوپر حملہ آوروں کو روکا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا، جو اللہ کا حکم مقرر تھا وہی ہوا اور یہی لوحِ محفوظ میں لکھا ہوا تھا''۔(جاری ہے )