ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2006 |
اكستان |
|
امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں فرمایا کہ معراج کی تاریخ میں روایات بہت مختلف ہیں ۔موسیٰ بن عقبہ کی روایت یہ ہے کہ یہ واقعہ ہجرتِ مدینہ سے چھ ماہ قبل پیش آیا اورحضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضرت خدیجہ اُم المؤمنین رضی اللہ عنہا کی وفات نمازوں کی فرضیت نازل ہونے سے پہلے ہو چکی تھی ۔امام زہری فرماتے ہیں کہ حضرت خدیجہ کی وفات کا واقعہ بعثت نبوی کے سات سال بعد ہوا ہے ۔ بعض روایات میں ہے کہ واقعہ معراج بعثت نبوی سے پانچ سال بعد میں ہوا ہے ۔ ابن اسحٰق کہتے ہیں کہ واقعہ معراج اُس وقت پیش آیا جبکہ اسلام عام قبائل عرب میں پھیل چکا تھا ۔اِن تمام روایات کا حاصل یہ ہے کہ واقعہ معراج ہجرت مدینہ سے کئی سال پہلے کا ہے ۔ حربی کہتے ہیں کہ واقعۂ اسراء و معراج ربیع الثانی کی ستائیسویں شب میں ہجرت سے ایک سال پہلے ہوا ہے۔ اورابن قاسم ذہبی کہتے ہیں کہ بعثت سے اٹھارہ مہینے کے بعد یہ واقعہ پیش آیا ہے۔حضرات محدثین نے روایاتِ مختلفہ ذکر کرنے کے بعد کوئی فیصلہ کن چیز نہیں لکھی اورمشہور عام طورپر یہ ہے کہ ماہ رجب کی ستائیسویں شب ، شب ِمعراج ہے۔ واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم (معارف القرآن ج٥ ص٤٤٢ و ٤٤٣) حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم فرماتے ہیں : ٢٧ رجب کی شب کے بارے میں یہ مشہور ہو گیا ہے کہ یہ شب ِمعراج ہے، اوراس شب کو بھی اِسی طرح گزرانا چاہیے جس طرح شب ِقدر گزاری جاتی ہے، اور جو فضیلت شب قدر کی ہے ،کم و بیش شب معراج کی بھی وہی فضیلت سمجھی جاتی ہے ،بلکہ میں نے تو ایک جگہ یہ لکھا ہوا دیکھا کہ ''شب ِمعراج کی فضیلت شب قدر سے بھی زیادہ ہے ''اور پھر اِس رات میںلوگوں نے نمازوں کے بھی خاص خاص طریقے مشہور کردئیے کہ اِس رات میں اتنی رکعات پڑھی جائیں ، اورہر کعت میں فلاں فلاں خاص سورتیں پڑھی جائیں ۔خدا جانے کیا کیا تفصیلات اس نماز کے بارے میں لوگوںمیں مشہور ہو گئیں ۔خوب سمجھ لیجیے ! یہ سب بے اصل باتیں ہیں، شریعت میںان کی کوئی اصل اور کوئی بنیاد نہیں ۔