ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2006 |
اكستان |
|
چاہتا کہ میں آپ کے ساتھ اِس کے جبڑے میں ہی ہوتا۔ لیکن یہ معاملہ ایسا ہے کہ اِس میں میری رائے نہیں ہوئی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مجھے کچھ نہیں دیا پھر میں حضرت حسن اور حسین اور عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم کے پاس گیا تو اُنہوں نے (اپنے عطیات سے) میرے دونوں اُونٹ لاد دیے۔ '' اَبُوْظِبْیَانَ قَالَ سَمِعْتُ اُسَامَةَ بْنَ زَیْدٍ یَقُوْلُ بَعَثَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلَی الْحُرْقَةِ فَصَبَّحْنَا الْقَوْمَ فَھَزَمْنَاھُمْ وَلَحِقْتُ اَنَا وَرَجُل مِّنَ الْاَنْصَارِ رَجُلًا مِّنْھُمْ فَلَمَّا غَشَّیْنَاہُ قَالَ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ فَکَفَّ الْاَنْصَارِیُّ فَطَعَنْتُہ بِرُمْحِیْ حَتّٰی قَتَلْتُہ فَلَمَّا قَدِمْنَا بَلَغَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ یَااُسَامَةُ اَقَتَلْتَہ بَعْدَ مَاقَالَ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ قُلْتُ کَانَ مُتَعَوِّذًا فَمَازَالَ یُکَرِّرُھَا حَتّٰی تَمَنَّیْتُ اَنِّیْ لَمْ اَکُنْ اَسْلَمْتُ قَبْلَ ذٰلِکَ الْیَوْمِ۔ (بخاری شریف ج٢ ص ٦١٢) ''ابوظبیان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو (اپنا واقعہ) بتلاتے ہوئے سنا کہ ہمیں جناب رسول اللہ ۖنے حرقہ کے پاس بھیجا۔ ہم نے اُن پر صبح ہی صبح حملہ کیا تو انہیں ہم نے شکست دی۔ (اسی اثناء میں) میں اور ایک انصاری اُن میں سے ایک شخص کے پیچھے لگے جب ہم نے اُسے جالیا تو اس نے کہا لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ تو انصاری صحابی نے ہاتھ روک لیا۔ میں نے اُس کے نیزہ مار کر مارڈالا۔ جب ہم واپس آئے تو یہ بات جناب رسول اللہ ۖ کو معلوم ہوئی، آپ نے فرمایا! اے اُسامہ کیا تم نے اسے لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہنے کے بعد پھر مارا؟ میں نے عرض کیا کہ اُس نے تو پناہ چاہنے کے لیے کہا تھا۔ جناب رسول اللہ ۖ بار بار (ملامت کے کلمات) دہراتے رہے، حتی کہ میرے دل میں فرطِ ندامت سے تمنا ہوئی کہ کاش میں آج ہی مسلمان ہوا ہوتا۔ '' اور حاشیہ نمبر ٥ بخاری میں اَمَرَہ بِالدِّیَةِ بحوالہ قرطبی تحریر ہے کہ آنحضرت ۖ نے اُس شخص کی دیت ادا کرنے کا حکم فرمایا فَاَمَرَہ بِالدِّیَةِ ۔ اس واقعہ کی بناء پر وہ شریک قتال نہ ہوئے اور حضرت علی کو اپنا عذر پیش کرتے رہے۔