ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2006 |
اكستان |
|
'سُورہ والضحٰی'' پڑھے۔ مسئلہ : اگر کوئی عید کی نماز میں ایسے وقت شریک ہوا کہ امام تکبیروں سے فارغ ہوچکا ہو تو اگر قیام میں آکر شریک ہوا ہو تو نیت باندھنے کے فوراً بعد تکبیریں کہہ لے اگرچہ امام قرا ء ت شروع کرچکا ہو اور اگر رکوع میں آکر شریک ہوا تو اگر غالب گمان ہو کہ تکبیروں کی فراغت کے بعد امام کا رکوع مل جائے گا تو نیت باندھ کر تکبیریں کہہ لے اِس کے بعد رکوع میں جائے اور اگر رکوع نہ ملنے کا خوف ہو تو رکوع میں شریک ہوجائے اور حالت ِرکوع میں بجائے تسبیح کے تکبیریں کہہ لے مگر حالت ِرکوع میں تکبیریں کہتے وقت ہاتھ نہ اُٹھائے اور اِس کے پوری تکبیریں کہہ چکنے سے پہلے اگر امام رکوع سے سر اُٹھالے تو یہ بھی کھڑا ہوجائے اور جس قدر تکبیریں رہ گئیں وہ اُس کو معاف ہیں۔ مسئلہ : اگر کسی کی ایک رکعت عید کی نماز میں چلی جائے تو جب وہ اُس کو ادا کرنے لگے تو پہلے قراء ت کرے اِس کے بعد تکبیریں کہے۔ مسئلہ : اگر امام تکبیریں کہنا بھول جائے اور رکوع میں اُس کو خیال آئے تو اُس کو چاہیے کہ حالت ِرکوع میں تکبیریں کہہ لے پھر قیام کی طرف نہ لوٹے اور اگر لوٹ جائے تب بھی جائز ہے یعنی نماز فاسد نہ ہوگی لیکن ہر حالت میں بوجہ کثرت ِہجوم کے سجدہ سہو نہ کرے۔ مسئلہ : اگر کسی عذر سے پہلے دن نماز نہ پڑھی جاسکے تو عید الفطر کی نماز دوسرے دن اور عید الاضحی کی نمازبارہویں تاریخ تک پڑھی جاسکتی ہے۔ مسئلہ : عید الاضحی کی نماز میں بے عذر بھی بارہویں تاریخ تک تاخیر کرنے سے نماز ہوجائے گی مگر مکروہ ہے اور عید الفطر میں بے عذر تاخیر کرنے سے بالکل نماز نہ ہوگی۔ مسئلہ : اگر عید کی نماز کا امام شافعی یا حنبلی ہو اور وہ نماز میں چھ سے زائد تکبیریں کہے تو بارہ بلکہ تیرہ تکبیروں تک حنفی مقتدی کو امام کی اتباع کرنی ہوگی۔ البتہ اگر کوئی امام تیرہ سے زیادہ تکبیریں کہے تو اِس سے زیادہ میں اتباع نہ کرے۔ مسئلہ : نماز کے بعد دو خطبے منبر پر کھڑے ہوکر پڑھے اور دونوں خطبوں کے درمیان میں اِتنی ہی دیر تک نیچے بیٹھے جتنی دیر جمعہ کے خطبے میں بیٹھتا ہے۔