ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2006 |
اكستان |
|
کا کیا مطلب ہے؟ (ذرامزید وضاحت فرمادیجئے) آپ نے فرمایا کہ مومن بندہ (جب وفات پاتا ہے تو) دُنیا کی آئے دن کی مشکلات اور اذیتوں سے (چھٹکارا پاکر) اللہ کی رحمت میں جاکر راحت حاصل کرلیتا ہے اور فاجر آدمی (کے مرنے) کی وجہ سے اللہ کے بندے اور (شہروں کے) شہر درخت اور جانور سب راحت پا (کرسکون کا سانس) لیتے ہیں۔ (بخاری شریف ج ٢ ص ٩٦٤) لہٰذا ہم میں سے ہر شخص اِن احادیثِ مبارکہ سے سبق لیتے ہوئے محلے کی سطح پر، شہر، صوبہ اور ملک ہر سطح پر اپنے اعمال کا بغور جائزہ لے۔ وزیر اعظم سے لے کر پٹواری تک، افسر اور ماتحت، مالک اور ملازم، نواب وڈیرے زمیندار اور کسان، گھر کے اندر بڑے اور چھوٹے، ساس سُسر اور بہوئویں، نند بھاوجیں، دیورانیاں جیٹھانیاں اور دیگر عزیز و اقارب سب آپس کے رویوں کا بغور جائزہ لے کر خدا خوفی سے کام لیتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ اور خود اپنے ساتھ انصاف سے کام لیں تاکہ آخرت بگرنے کے بجائے سنورجائے۔ اِنسان کو ہر وقت موت کا دھیان رہنا چاہیے کہ کسی طرح وہ اچھی ہوجائے، اگر یہ اچھی ہوجائے گی تو بعد میں آنے والی منزلیں آسان ہوتی چلی جائیں گی۔ اور اگر خدانخواستہ بری موت مرجائے انسان تو خیر نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کے بعد آنے والی ہر منزل مشکل سے مشکل تر ہوتی چلی جائے گی۔نیز دُنیا میں جب تک زندہ رہے مخلوقِ خدا کی خدمت کرتا رہے تاکہ جب دُنیا سے جائے تو اللہ بھی خوش ہو اور اُس کی مخلوق بھی خوش ہوکر اُس کی مغفرت و آخرت میں بلند درجات کی دُعائیں کیا کرے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی سمجھ اور اُس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔